بخدا اُس نے ہدایت کے رکن کو گرا دیا

حضرت علی علیہ السلام سن ٤٠ہجری کو مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ۔

عبد الرحمٰن بن ملجم مرادی، خوارج میں ان تین آدمیوں[١] میں سے ایک تھا جنہوں نے مکہ معظمہ میں قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ تین بڑی شخصیتوں یعنی امام علیؑ بن ابیطالبؑ، معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو عاص کو قتل کر ڈالیں گے۔
ہر کوئی اپنے منصوبے کے مطابق اپنی جگہ کی طرف روانہ ہوا اور اسطرح عبدالرحمٰن بن ملجم مرادی کوفہ آیا اور بیس شعبان سن چالیس کو شھر کوفہ میں داخل ہوا۔

وہ شبیب بن بجرہ اشجعی، جو کہ اسکے ہم فکروں میں سے تھا اور دونوں کو “قطاب بنت علقمہ” نے اکسایا اور للچایا تھا اور اس طرح انیسویں رمضان سن چالیس ہجری کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں کمین میں بیٹھ کر امیرالمومنین علی علیہ السلام کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ دوسری طرف قطام نے “وردان بن مجالد” نامی شخص کے ساتھ اسکے قبیلے کے دو آدمی اسکی مدد کیلۓ روانہ کئے تھے.
اشعث بن قیس کندی[٢] جو کہ امام علی علیہ السلام کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا، اس نے امام علی علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھاتا رہا.

حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے اور یہ رات نہایت عجیب اور آنحضرت کے حالات غیر عادی تھے اور ان کی بیٹی ایسی حالت کا مشاھدہ کرنے سے نہایت حیران اور پریشان تھی.

روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آکر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے:
خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے. یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے.

بہر حال نماز صبح کیلۓ آنحضرت کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، من جملہ خود عبدالرحمٰن بن ملجم مرادی کو جو کہ پیٹ کے بل سویا تھا کو بیدار کیا۔ اور اسے نماز پڑھنے کو کہا.

جب آنحضرت محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی، پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اور اسکے بعد عبدالرحمٰن بن ملجم مرادی نے نعرہ دیا: “للہ الحکم یاعلی، لا لک و لا لاصحابک”! اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیا اور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ (ماتھے) تک شگاف ہوا.

حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا:
“بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ، فزت و ربّ الکعبہ”
خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گيا.

کچھ نماز گذار شبث اورا بن ملجم کو پکڑنے کیلئے باھر کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑهے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگے.

حضرت علی علیہ السلام کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا:
“ھذا وعدنا اللہ و رسولہ”
یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیا تھا.

حضرت علی علیہ السلام چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لئے اپنے فرزند امام حسن مجتبٰیؑ سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی.

روایت میں آيا ہے کہ جب عبدالرحمٰن بن ملجم نے سر مبارک حضرت علی علیہ السلام پر شمشیر ماری زمین لرز گئی، دریا کی موجیں تھم گئیں، اور آسمان متزلزل ہوا، کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکرائے، آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں، کالی گھٹائيں چھا گئیں، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہوگئی اور جبرئيل آمین نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا:
“تهدمت و الله اركان الله الهدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء”[٣]

خدا کی قسم ھدایت کے رکن کو توڑا گیا علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء علی مرتضٰی کو شھید کیا گيا، اسے شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شھید کیا۔

اس طرح بہترین پیشوا، عادل امام، حق طلب خلیفہ، یتیم نواز اور ھمدرد حاکم، کامل ترین انسان، خدا کا ولی، رسول خدا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کو روئے زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کر ڈالا اور وہ لقاء اللہ کو جاملے، الہٰی پیغمبروں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہمنشین ہوئے اور امت کو اپنے وجود بابرکت سے محروم کر گئے.

حوالہ جات:
[١] – تاريخ يعقوبى/ترجمه،ج2،ص:١٣٨،اخبارالطوال/ترجمه،ص:٢٦٠
[٢] – تاريخ يعقوبى/ترجمه،ج2،ص:٩٠
[٣] – بحار الانوار :ج٤٢، ص٢٨١