زیارت عاشورا اور براءت

اس بات سے کوئ انکار نہیں کرسکتا کہ دشمنان خدا سے براءت دین کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ کلمئہ توحید “لاٙ اِلٰہٙ اِلّٙا اللّٰہٙ” اس کی واضح دلیل ہے۔ جھوٹے خداؤں کا انکار اقرار ‘وحدہ لا شریک ‘ سے قبل ضروری اور لازمی ہے۔ جب تک دل منکر کی پلیدگی سےمبرّا نہیں ہوجاتا، تب تک اس میں نیکی اور اچھائ کا بیج نہیں بویا جاسکتا۔ قرآنی آیات میں اس امر کی طرف ان جملوں میں اشارہ ہوا ہے “…یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمة….” “…نبی ان کے نفسوں کو پاک کرتا ہے اور پھر انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے..”- بہر حال کسی اور مسلک میں نہ سہی شیعہ مذہب میں براءت اور تبرّا امور دین میں ایک اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ شیعہ ‘لٹریچر’ کی ہر تحریر میں برے کرداروں سے براءت کرنے کی تلقین ہے اور ان پر لعنت کرنے کا ذکر بھی موجود ہے۔ قرآن کریم میں، احادیث نبویؐ میں، دعاءوں میں، اذکار میں یہاں تک کہ ائمہ علیہم السلام کی زیارتوں میں بھی ان کے دشمنوں سے براءت اور ان پر ظلم کرنے والوں پر باقاعدہ لعنت کی گئ ہے۔ اس مختصر مقالے میں ہم زیارت عاشورا کے ان فقروں پر نظر ڈالیں گے جن میں براءت اور لعنت کا ذکر ملتا ہے۔

براءت اور تقرب الٰہی
حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے متعلق بہت سی زیارات کتابوں میں نقل ہوئ ہیں۔ ان زیارتوں میں کچھ زیارتیں خاص دنوں کے لیے وارد ہوئی ہیں۔ ان تمام زیارتوں میں روز عاشورا کی زیارت کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ بلکہ روایات بتاتی ہیں کہ یہ زیارت دراصل حدیث قدسی ہے،جسے جناب جبرئیل عرش الٰہی سے لے کر نازل ہوئے تھے۔ اس زیارت کے معتبر اور مستند ہونے میں کوئ شک یا شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس زیارت میں باقاعدہ براءت کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے ایک فقرے میں ہم پڑھتے ہیں۔
وٙاٙتٙقٙرّٙبُ اِلٙی اللّٰہِ ثُمّٙ اِلٙیْکُمْ بِمُوٙالٙاتِکُمْ وٙبِالْبٙرٙائٙةِ مِنْ اٙعْدٙائِکُمْ…
آپ کی ولایت کے سہارے اور آپ کے دشمنوں سے براءت کے ذریعہ میں سب سے پہلےخدا عزوجل پھر آپ کے حضور میں تقرب کا امیدوار ہوں۔

اس جملے سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ دشمنان اہلبیتؑ سے اظہار براءت کے بغیر تقرب الٰہی نامکن ہے۔ دشمنان اہلبیت علیہم السلام سے براءت تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ صرف اہلبیتؑ سے دوستی ہی قربت الٰہی کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ان کے دشمنوں سے براءت بھی اسی دوستی کا اہم جز ہے۔ دیگر روایات میں بھی یہی مفہوم نظر آتا ہے کہ تبرّا کے بغیر تولا ناقص ہے۔ کسی کا عقیدہ ولایتِ اہلبیتؑ بارگاہ خدا میں اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے جب تک کہ وہ اہلبیتؑ کے دشمنوں سے بیزاری اور براءت نہ کرے۔
ایک اور مقام پر ہم پڑھتے ہیں:
فٙاٙسْئٙلُ الّٰلہٙ الّٙذِیْ اٙکْرٙمٙنِیْ بِمٙعْرِفٙتِکُمْ وٙ مٙعْرِفٙتِ اٙوْلِیٙائِکُم وٙ رٙزٙقٙنِی اٙلْبٙرٙآةٙ مِنْ اٙعْدٙآئِکُمْ….
پس میں اس خدا سے سوال کرتا ہوں کہ جس نے مجھے آپؑ کی اور آپ کے اولیآء کی معرفت سے نوازا ہے اور آپؑ کے دشمنوں سے براءت کی توفیق دی ہے….

اس جملے سے یہ حقیقت بھی آشکارہوجاتی ہے کہ دشمنان اسلام اور دشمنان اہلبیتؑ سے براءت کرنا خدا کی طرف سے ایک عظیم توفیق ہے۔ بلکہ زیارت کے جملوں میں تو اس توفیق کو خداکا عطا کردہ رزق بتایا گیا ہے،جس سےمومن بارگاہ ایزدی میں مکرم ہو جاتا ہے۔ اس فقرے میں اہلبیت علیہم السلام اور ان کے دوستوں کی معرفت کو ان کے دشمنوں سے براءت کا ہم پلہ بتایا گیا ہے۔ یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی بھی ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ضروری بھی۔ یہ فقرہ، “اٙلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وٙ الْبُغْضُ فِی اللّٰہِ – اسلام کے بنیادی اصول کے بعینہ مطابق ہے۔ “محبت ہو تو اللہ کے لیے اور دشمنی بھی ہو تو خدا کی خاطر”

آل محمد پر ظلم کرنے والوں پر لعنت
حکم قرآن ہے کہ ہر مومن پر واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہلبیتؑ سے محبّت کرے(شوریٰ: 23)۔ یہی فرمان احادیث نبویؐ میں بھی موجود ہے۔ صحیح مسلم میں موجود حدیث ثقلین کا وہ متن جس کو اہل سنت بھی معتبر مانتے ہیں، میں یہ فقرہ تین مرتبہ دہرایا گیا ہے “…. اذکرکم فی اہلبیتی۔.” تم سب کو میں اپنے اہلبیت سے محبت کرنے کو یاد دلاتا ہوں”۔ مگر افسوس امت نے نہ قرآن کے حکم پر عمل کیا اور نہ ہی اپنے رسولؐ کی ہدایت کو مانا۔ امت نے اہلبیتؑ پیغمبرؐ پر اس طرح ظلم کیا کہ جگر گوشئہ رسولؐ کو کہنا پڑا کہ اگر یہ مصائب دن پر پڑتے تو دن تاریک رات میں تبدیل ہوجاتا۔ ظالموں کے ان مظالم نے انھیں اللہ، ورسولؐ اور مومنین کی لعنت کا مستحق بنادیا ہے۔ اسی لیے ہم اس زیارت میں پڑھتے ہیں
فٙلٙعْنٙ اٙللّٰہُ اُمّٙةً اٙسّٙسٙتْ اٙسٙاسٙ الظُّلْمِ وٙالْجٙوْرِ عٙلٙیْکُمْ اٙہْلٙ الْبٙیْتِ…
پس اللہ لعنت کرے اس قوم پر جس نےآپ اہلبیتؑ پر ظلم و جور کی بنیاد ڈالی ہے…۔

پھر دوبارہ اس بات کو ان جملوں میں دہراتے ہیں۔
اٙلٙلّٰہُمّٙ الْعٙنْ اٙوّٙلٙ ظٙالِم ظٙلٙمٙ حٙقّٙ مُحٙمّد وٙ آلِ مُحٙمّٙد وٙ آخِرٙ تٙابِع لٙہُ عٙلٰی ذٰلِکٙ۔
خدایا اس پہلے والے ظالم پر لعنت کرجس نے محمدؐ اور آل محمدؑ کے حق میں ظلم کیا اور پھر اس کے آخر والے پر بھی لعنت کر جس نے ظلم کرنے میں اس کی پیروی کی…

جس ظالم نے سب سے پہلے اہلبیتؑ پر ظلم کی بنیاد رکھی وہ سب سے زیادہ لعنت کا مستحق ہے کیونکہ اسی نے اس ظلم و جور کا دروازہ کھولا۔
لٙعٙنٙ اٙللّٰہُ اُمّٙةً دٙفٙعٙتْکُمْ عٙنْ مٙقٙامِکُمْ وٙ اٙزٙالٙتْکُمْ عٙنْ مٙرٙاتِبِکُمْ الّٙتِیْ رٙتّٙبٙکُمْ اٙللّٰہُ فِیْہٙا
اللہ لعنت کرے اس قوم پر جس نے آپؑ کو آپؑ کے مقام سے ہٹادیا اور اس مرتبہ سے معزول کیا جس پر اللہ نے آپؑ کو فائز کیا تھا۔

ایک دور یہ تھا کہ سرورؐ کائنات اپنی بیٹی کے دروازے پر آکر سلام کیا کرتے تھے۔ جب بھی مدینے سے باہر جاتے تو سب سے آخر میں اپنی دختر سے رخصت ہوتے اور جب پلٹ کر مدینے آتے تو سب سے پہلے انھیں کے گھر جاتے۔ اہل مدینہ نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح سردار انبیاءؐ اپنی پارہ جگر کے احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ سرورِؐ کائنات کی رحلت کے بعد زمانے نے اس طرح کروٹ لی کہ اس معدن رسالت کے احترام کو پامال کردیا گیا۔ رسول زادی صدیقئہ طاہرہ علیہا السلام کو دربار میں جھٹلایا گیا، ان کے گھر کو آگ لگا دی گئ، ان کے شوہر کو ظلم کا ہدف بنایا گیا، ان کا حق خلافت چھین لیا گیا، ان سے ان کا باغ چھین لیا گیا…- اللہ لعنت کرے ان ظالموں پر اور ان لوگوں پر بھی لعنت کرے جو سیدہؑ پر ظلم کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔

امام حسینؑ سے جنگ کرنے والوں پر لعنت
کربلا صرف ایک سانحہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک طویل داستان کا ایک چیپٹر ہے۔کربلا ایک سوالیہ نشان ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے پچاس سالوں کے اندر مسلمانوں کا خلیفہ ایک ایسا شخص بن گیا جو شرابی تھا، فاسق و فاجر تھا، جس کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ صحابہ کی اتنی بڑی جماعت اور تابعین کی موجودگی میں یزید جیسا زانی اور بدکردار مسلمانوں کا حاکم بن گیا؟؟ یقینًا امت کے مفاد پرست لوگوں کا ہی یہ کارنامہ ہے ۔ عالم اسلام جانتا ہے کہ کربلا کے میدان میں صرف امام حسینؑ اور ابن زیاد ملعون کا لشکر آمنے سامنے نہیں تھا بلکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ جنگ دین اور بے دینوں کے مابین تھی۔ امام مظلوم کی عظیم قربانی نے تاقیامت دین کو مسخ ہونے سے بچالیا ہے۔ کربلا کے بعد حسینیت دین ہے اور دین حسینیت ہے۔ اسی لیے زیارت عاشورا میں ہم پڑھتے ہیں
اٙللّٰہُمّٙ الْعٙنِ الْعِصٙابٙةٙ الّٙتِی جٙاھٙدٙتِ الْحُسٙیْنؑٙ وٙ شٙایٙعٙتْ وٙ بٙایٙعٙتْ وٙ تٙابٙعٙتْ عٙلٰی قٙتْلِہ
خدایا لعنت کر اس گروہ پر جس نے حسینؑ سے جنگ کی ، ان کے قاتلوں کی اتباع کی اور ان کے قاتلوں کی بیعت کی۔

لٙعٙنٙ اللّٰہُ الْمُمّٙہِدِیْنٙ لٙہُمْ بِالتّٙمْکِْینِ مِنْ قِتٙالِکُمْ
اللہ لعنت کرے اس قوم پر جس نے آپؑ پر ظلم کرنے والوں کے لیے زمین ہموار کی-

اسی طرح کربلا میں جو لوگ سید الشہدا کے مقابلے میں میدان میں آئے، ان سب پر خدا کی لعنت ہو۔ ہر وہ شخص جو ابن زیاد کے لشکر میں کسی بھی اعتبار سے رہا اس پر خدا کی لعنت ہو۔
لٙعٙنٙ اللّٰہُ اُمّٙةً اٙسْرٙجٙتْ وٙاٙلْجٙمٙتْ وٙ تٙنٙقّٙبٙتْ لِقِتٙالِکٙ
اللہ لعنت کرے اس قوم پر جس نے زین کسا یا لگام لگائ یا نقاب ڈالی آپؑ سے جنگ کرنے کے لئے۔

خصوصی لعنت
اکثر و بیشتر یہ سوال کیاجاتا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ لعنت نام بنام بھیجی جائے؟ لعنت تو خود اپنے مستحق کو ڈھونڈھ لیتی ہے، یہ بات اپنی جگہ معقول ہے،مگر زیارت عاشورا میں ہم دیکھتے ہیں کہ باقاعدہ کچھ افراد کے نام لے کر لعنت کی گئ ہے۔ مثلاً بنی امیہ کے افراد ابو سفیان، معاویہ، یزید وغیرہ اور ان کے حامیان مثلًا شمر، عمر ابن سعد، اور ابن زیاد کے نام لے کر متعدد مقامات پر لعنت کی گئ ہے۔ مگر کچھ ظالموں کے نام نہیں لیے گئے ہیں بلکہ صرف پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا کہہ کر نام لینے سے گریز کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یقینًا تقیہ ہے۔ہمارے علماء نے خود کو اور اپنی قوم کو قتل و غارتگری سے بچانے کے لیے تقیے کا سہارا لیا ہے (کتاب شفاء الصدور میں اس کا نمونہ نقل کیا گیا ہے) یہی اس سوال کا جواب بھی ہے کہ حساس نام کھلے عام نہ لیے جائیں اور جو جو امام حسین علیہ السلام کے قتل میں کھلے طور پر شامل ہیں، ان کا نام لے کر لعنت کی جائے۔
اٙللّٰہُمّٙ خُصّٙ اٙنْتٙ اٙوّٙلٙ ظٙالِم بِاللّٙعْنِ مِنِّی وٙ ابْدٙاءٙ بِہ اٙوّٙلاً ثُمّٙ الْعٙنِ الثّٙانِی وٙ الثّٙالِثٙ وٙ الرّٙابِع اٙللّٰہُمّٙ الْعٙنْ یٙزِیْدٙ خٙامِساً۔
خدایا! میری لعنت کو مخصوص کر دے اس شخص کے لیےاور اسی پہلے شخص سے لعنت کی ابتدا کر،جس نے (آل محمدؑ پر)ظلم ڈھایا ہے، پھر دوسرے،پھرتیسرے،پھر چوتھے اورپھر ان کے پانچویں فرد یزید پر لعنت کر۔

اللہ ہم سب کو اس زیارت کو مستقل پڑھنے کی توفیق عطا کرے (جس کی تاکید ہمارے وقت کے امام نے بھی فرمائ ہے) اللہ اس دنیا میں ہمیں امام حسین علیہ السلام کی زیارت نصیب کرے اور آخرت میں ان کی شفاعت اور ہم نشینی کا مستحق قرار دے۔