عالم اسلام آج جن مسائل سے دو چار ہے ، ان میں ایک بہت بڑا مسئلہ فرقہ واریت ہے۔ ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو راہ ہدایت پر گامزن اور دوسروں کو گمراہ سمجھتا ہے یہی نہیں ، بعض اسلامی فرقے تو دوسروں کو کافر اور اسلام سے خارج تک سمجھتے ہیں جس کے سبب آج یہ نوبت آ گئ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا خون بہانا مباح سمجھتے ہیں۔ فرقہ واریت کے اس جنون نے ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس فرقہ واریت کا آغاز کب سے ہوا اور کس نے مسلمانوں کو اتنے فرقوں میں بانٹ دیا؟
چنانچہ اس سلسلے میں جب ہم احادیث کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا فرقوں میں بنٹ جانے کا علم رسول اسلام (ص) کو بھی تھا۔ اسی لیے وہ ایک نوشتہ تیار کردینا چاہتے تھے ، تاکہ مسلمان تفرقہ سے بچ جائیں ، مگر افسوس ، ان کو ایسا کرنے نہ دیا گیا. یہ واقعہء کرب احادیث میں اس طرح نقل ہوا ہے۔ رسول اسلام (ص) کے آخری ایام میں جب آپؐ کے اصحاب میں سے ایک جماعت آنحضرت (ص) کی عیادت کے لیے حاضر ہوئی تو آپؐ نے انھیں حکم دیا:
آتُوْنِیْ بِدَوَاتٍ وَ قِرْطَاسٍ اِکْتُبُ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہ اَبَدًا۔
’’میرے پاس ایک قلم اور ایک کاغذ لاؤ تاکہ میں تمھارے لیے وصیت لکھ دوں ، جس سے میرے بعد تم گمراہ نہ ہو نے سے بچ جاؤ‘‘۔
وہاں موجود ایک شخص نے جواب میں کہا:
اِنَّ النَّبِیَّ غَلَبَہ الْوَجْعُ وَ عِنْدَکُمْ کِتَابُ اللهِ، حَسْبُنَا کِتَابُ اللهِ۔
“یقیناً نبیؐ بیماری میں مبتلا ہیں (ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لینے کا مشورہ دیا گیا ہے)۔ اللہ کی کتاب تمہارے پاس ہے۔ اللہ کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے!
(صحیح بخاری باب علم، ج 22، مسند احمد بن حنبل، احمد محمد شاکر کی تحقیق، روایت 2996، ابن سعد کی طبقات ج 2، ص 244 بیروت ایڈیشن)
ابن سعد کی کتاب طبقات میں ہمیں ایک اور روایت ملتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا:
اِنَّ النَّبِیَّ اللهِ لِیَہْجٙرَ
’’پیغمبر مضطرب ہیں۔‘‘
(ابن سعد، طبقات ص 2 ص 242، بیروت ایڈیشن)
صحیح بخاری باب جوائز الوفد کتاب جہاد v 2 120، اور باب ہجرت یہودیوں کی تشکیل جزیرہ نما عرب صفحہ 36 میں یہ الفاظ ہیں۔
’’یہ کہنے والا وہی تھا جس نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔‘‘ یعنی خلیفہ دوّم – عمر بن خطاب۔
اہل تسنّن کتابوں میں عمر کا اعتراف:-
ایک موقع پر خود عمر نے اس نازیبا اور شرمناک حرکت کا اعتراف کیا ہے۔
خلیفہ دوّم کے حالات بیان کرتے ہوئے ابوالفضل احمد ابن ابی طاہر نے تاریخ البغداد میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد 3 ص 97 میں لکھا ہے:
ایک دن خلیفہ دوم اور ابن عباس کے درمیان طویل بحث چلی جس کے دوران عمر نے کہا:
“اس بیماری کے دوران جو آپ کی وفات کا باعث بنی، رسول اللہ (ص) نے ان کا نام (یعنی امام علی علیہ السلام کا نام) آگے رکھنا چاہا لیکن ہم نے آنحضرتؐ کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ حضور اکرم (ص) نے اسے منظور نہیں فرمایا۔
اس وقت حاضرین میں سے بعض نے عرض کی :
رسول اللہ (ص) کی ہدایات پر عمل کرو۔
گرما گرم بحث کے بعد کچھ لوگوں نے قلم اور کاغذ لانے کا ارادہ کیا جس پر پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
اَوْ بَعْدَ مَاذَا؟
اس کے بعد (اس کا کیا فائدہ)؟
طبقات ابن سعد جلد 2 ص 242، بیروت ایڈیشن
جب آنحضرت (ص) کی موجودگی میں لوگوں میں اختلاف بڑھ گیا اور آوازیں بلند ہوئیں اور حالات نے بدصورت رخ اختیار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
قُوْمُوْا عَنِّیْ، لاَ یَنْبَغِیْ عِنْدَ نَبِیَّ تَنَازَعٌ۔
مجھ سے دور ہو جاؤ، نبیؐ کی موجودگی میں جھگڑا کرنا مناسب نہیں۔
تاریخ ابی الفداء، ج۱، ص۱۴۔ 15
صحیح بخاری میں کتاب العلم کے باب 1 ص 22 میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی معمولی تغیر کے ساتھ درج ہے:
قَالَ: قُوْمُوْا عَنِّیْ و لاَ یَنْبَغِیْ عِنْدِی التَّنَازَعُ
مجھ سے دور ہو جاؤ، میری موجودگی میں بحث کرنا مناسب نہیں۔
واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی وصیت لکھنے سے روک کر صحابہ نے نہ صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی ، بلکہ مسلمانوں کو ایک تاریک راہ پر لگا دیا ، جس سے وہ کبھی نہیں نکل سکے۔ اگر یہ لوگ رسول اکرم (ص) کو اپنی وصیت تحریر کرنے دیتے ، تو آج اسلام میں اتنے فرقے نہ ہوتے۔