وہابی، جو صرف اپنے آپ کو موحد سمجھتے ہیں اور دیگر تمام اہل اسلام کو مشرک، زیارت قبور کے سخت مخالف ہیں۔ ان کی نظر میں یہ فعل شرک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ نام نہاد شیعہ مفکر بھی اسی کج فہمی کا شکار ہیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اور وہابیوں کے مختصر جواب کے لیے ہم دو روایت سنّی کتابوں سے پیش کر رہے ہیں۔
اہل تسنّن کی کتابوں میں حضور اکرم (ص) سے یہ مشہور روایت ملتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: “جو میری وفات کے بعد میری زیارت کو آتا ہے وہ ایسا ہی جیسے اس نے میری زندگی میں مجھ سے ملاقات کی۔ (من زارني بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ..) ( الدارقطني في سننه (2/278))
اسی طرح کی ایک اور مشہور روایت، جس کو چند بزرگ اہل تسنّن علماء مثلًا ابی یعلیٰ، دارقطنی، طبرانی، بیھقی اور ابن عساکر وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے، اس طرح ہے کہ آنحضرت (ص) کا ارشاد ہے کہ،”جو کوئ میری زیارت کے لیے آتا ہے اس کا مجھ پر حق ہے کہ روزِ قیامت، میں اس کی شفاعت کروں۔” ان دو روایتوں کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ معزز قارءین پر یہ بات ظاہر ہوجائے کہ رسول اسلام (ص) کی زیارت کا شرف اور ثواب اہل تسنّن کی کتابوں میں بھی مرقوم ہے۔
اب ہم ان جدید یا ‘ماڈرن فکر’ رکھنے والے یا ‘خالص توحید’ کے پیروکاران ‘شیعہ مفکرین’ کا جواب پیش کررہے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن یا احادیث میں کہیں یہ بات موجود نہیں ہے کہ قبرِ ائمہؑ کی زیارت کی جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو خطیب یا ذاکر یہ کہتا ہے کہ زیارتِ ائمہؑ کا ثواب حج کرنے سے زیادہ ہے وہ غلط بیانی کرتا ہے۔ اس طرح کی باتیں قرآن کے خلاف ہیں اور یہ شیعہ کتب احادیث میں کہیں پائ نہیں جاتیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے اس وہم کو دور کرنے کے لیے کتاب ‘کامل الزیارات’ کی روایتیں کافی ہیں۔ تاہم ہم اس مضمون میں بزرگ ترین علمائے احادیث شیخ صدوق اور شیخ حر آملی کی کتابوں سے روایات پیش کر رہے ہیں۔ (اسی متن کی روایات کامل الزیارات اور دیگر کتب میں بھی کثرت سے موجود ہیں)۔ مکتب اہلبیتؑ کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ ائمہ معصومین کے لیے موت و حیات ایک جیسے ہیں یعنی جو اختیارات ان حضراتؑ کو زندگی میں حاصل ہیں، وہ سب اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ان کی دسترس میں رہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم زیارتوں میں یہ فقرہ پڑھتے ہیں کہ ‘میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرا کلام سن رہے ہیں اور آپؑ مجھے دیکھ رہے ہیں”۔
شیعوں کے یہاں زیارت قبورِ ائمہ اور زیارت رسول خدا (ص) میں کوئی فرق نہیں ہے کیوں کہ تمام مزاراتِ ائمہؑ کے ‘اذنِ دخول’ میں ہم پڑھتے ہیں کہ تمام ائمہ (ع) کے حرم ، خود رسول خدا (ص) کا حرم ہیں۔ لہٰذا تمام معصومین کی زیارت در اصل رسول اکرم (ص) کے حرم کی زیارت ہے۔ اس کے باوجود زیارات کی کتابوں میں سید الشہداء امام حسینؑ کی زیارت کا مخصوص ثواب بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان متعدد روایات میں سے چند کو بیان کر رہے ہیں۔
• قَالَ اَلصَّادِقُ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : «إِنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَبْدَأُ بِالنَّظَرِ إِلَى زُوَّارِ قَبْرِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ » قِيلَ لَهُ قَبْلَ نَظَرِهِ إِلَى أَهْلِ اَلْمَوْقِفِ قَالَ «نَعَمْ» قِيلَ لَهُ وَ كَيْفَ ذَاكَ قَالَ «لِأَنَّ فِي أُولَئِكَ أَوْلاَدَ زِنًى وَ لَيْسَ فِي هَؤُلاَءِ أَوْلاَدُ زِنًى» .
(من لا يحضره الفقيه ج ۲، ص ۵۸۰)
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: “اللہ تبارک و تعالیٰ شب عرفہ سب سے پہلے اپنی نظرِ رحمت زوّارِ قبرِ امام حسینؑ پر کرتا ہے۔” حضرتؑ سے سوال کیا گیا:”اہل موقف (عرفات کے میدان میں موجود حاجیوں) سے بھی پہلے؟؟” حضرتؑ نے فرمایا:”ہاں۔”
راوی نے سوال کیا:”یہ کیسے ممکن ہے؟” امام (ع) نے جواب دیا: “کیوں کہ عرفات کے مجمع میں حرام زادے بھی ہوتے ہیں جبکہ زوّارِ قبر امام حسینؑ میں کوئ بھی حرام زادہ نہیں ہوتا۔”
اس روایت میں یہ بیان ہو رہا ہے کہ خدا کی نظر میں زائرین کربلا کی فضیلت حاجیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کربلا میں خالص امام حسینؑ کے شیعہ (پاک پیدائش والا گروہ) ہوتا ہے جبکہ عرفات کے میدان میں ہر مکتب و عقیدہ کے مسلمان (مخلوط گروہ) ہوتے ہیں۔
• شہاب بن عبد ربہ سے روایت نقل ہوئ ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے شہاب سے پوچھا : “اے شہاب ! تم نے کتنی بار حج کیا ہے؟” شہاب نے جواب دیا: “انیس (١٩) بار ۔”
امامؑ نے فرمایا: “بیس (٢٠) حج پورے کر لو تو تمھارے لیے زیارتِ قبرِ حسینؑ کا ثواب لکھ دیا جائے گا۔”
(ثواب الاعمال ص ١١٨)
اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زیارت قبرِ امام حسینؑ کا ثواب بیس حج کے برابر ہے۔
• مالک بن عطیہ نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: “جو کوئی قبرِ امام حسینؑ کی زیارت کرتا ہے الله اس کے نامہ اعمال میں اسی (٨٠) مقبول حج ادا کرنے کا ثواب لکھ دیتا ہے۔” (ثواب الاعمال ص ١١٨)
اس روایت میں اسی حج کا ثواب بیان ہو رہا ہے۔ مندرجہ بالا دونوں روایتوں میں یہ بیس حج اور اسی حج کے ثواب کا فرق جو بیان ہوا ہے وہ کوئ تضاد نہیں ہے بلکہ زیارت کرنے والے کی معرفت اور امام شناسی کی بنا پر ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان دونوں راویوں میں ایک کے لیے اُس ماحول میں کربلا کی زیارت کرنا زیادہ دشوار ہو اس لیے اس کو زیادہ ثواب بتایا گیا ہے جبکہ دوسرے کے حالات کم پریشان کن ہوں اس لیے صرف بیس حج کے ثواب کا بیان ہے۔
• عن أُمِّ سَعِيدٍ اَلْأَحْمَسِيَّةِ قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَ قَدْ بَعَثْتُ مَنْ يَكْتَرِي لِي حِمَاراً إِلَى قُبُورِ اَلشُّهَدَاءِ فَقَالَ مَا يَمْنَعُكِ مِنْ زِيَارَةِ سَيِّدِ اَلشُّهَدَاءِ قُلْتُ وَ مَنْ هُوَ قَالَ اَلْحُسَيْنُ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَتْ قُلْتُ وَ مَا لِمَنْ زَارَهُ قَالَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ حَجَّةٌ وَ عُمْرَةٌ مَبْرُورَةٌ وَ مِنَ اَلْخَيْرِ كَذَا وَ كَذَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ بِيَدِهِ .
(وسائل الشیعة إلی تحصیل مسائل الشریعة ج ۱۴، ص ۴۳۵)
ام سعید احمسی کہتی ہیں کہ،”میں امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں تھی اور میں نے کسی کو بھیجا تھا کہ شہداء کی قبروں کی زیارت پر جانے کے لیے میرے لیے ایک گدھا کرائے پر لے آئے۔” جب حضرتؑ کو اس بات کا علم ہوا تو آپؑ نے مجھ سے دریافت کیا،” (مدینہ کے شہداء کی زیارت کو جانا چاہتی ہو؟) تمھیں کون سی چیز سید الشہداء کی زیارت سے روکے ہوئے ہے؟” میں نے عرض کیا،”مولا میں آپؑ پر قربان ہو جاءوں، سید الشہداء کون ہیں؟” امامؑ نے جواب دیا ،”حسینؑ بن علیؑ۔” میں نے عرض کی ،”جو ان کی زیارت کرے اس کے لیے کیا اجر ہے؟” امامؑ نے فرمایا،”حج و عمرہ کے ساتھ ساتھ دیگر اعمالِ خیر کا بھی ثواب ہے۔” حضرتؑ نے اس ثواب کو تین مرتبہ اپنے ہاتھوں پر شمار کیا۔”
اس روایت میں ہماری بات کی تائید ہوجاتی ہے کیوں کہ اس محترم خاتون کو سیدالشہداء کی معرفت نہیں تھی اس لیے امامؑ نے صرف حج و عمرہ اور بعض نیکیوں کا ثواب بتلایا ہے۔ بہرحال ان تمام روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کربلائے معلّیٰ میں امام حسینؑ کی زیارت کم از کم ایک مقبول حج سے زیادہ کا ثواب رکھتی ہے۔
حج و عمرہ کے عمل میں ‘بیت اللہ’ خانہ کعبہ کی زیارت بھی شامل ہے، جس کا صرف دیکھنا ہی عبادت ہے۔ اسی طرح صحنِ کعبہ میں نماز ادا کرنا کسی بھی دوسرے مقام پر نماز ادا کرنے سے کہیں زیادہ ثواب کا حامل ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضراتِ حسنینؑ نے کئ مرتبہ حج کیے ہیں۔ ائمہ معصومین سے مروی روایات میں حج و عمرہ کرنے کا بھی ثواب بیان ہوا ہے۔ لہذا اس مضمون سے ہمارا مقصد لوگوں کو حج یا عمرہ کرنے سے روکنا یا ان کی اہمیت کو کم کرنا نہیں ہے، بلکہ اہلبیتؑ کے چاہنے والوں کو کربلا میں مزارِ سیدالشہداء کی زیارت کا شوق دلانا ہے۔ جس کسی سے بھی ممکن ہو اپنی استطاعت کی بنا پر کربلا کا سفر اختیار کرے اور اگر خدا نے مال دنیا سے نوازا ہے تو دوسروں کو بھی کربلا کی زیارت کروائے۔ اس مضمون کا دوسرا اور اہم مقصد یہ ہے کہ جو افراد زیارتِ قبور ائمہؑ کو کم سمجھتے ہیں ان کو اس عظیم عبادت کا ثواب معلوم ہو جائے۔