ہشام بن حکم کا ایک شامی سے دلچسپ مناظرہ ٰ

معتبر شیعہ کتابوں میں مدافع امامت حضرت ہشام بن حکم کے بہت سے مناظرے اور مباحثے درج ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو خود امام علیہ السلام کی موجودگی میں انجام پاے ہیں۔ ایسا ہی ایک دلچسپ مناظرہ کتاب کافی، کتاب الاحتجاج اور بحار الانوار میں مرقوم ہے۔

یونس بن یعقوب کا بیان ہے کہ ایک دن ہم گروہ اصحاب حضرت امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شامی داخل ہوا اور کہنے لگا:”میں علم کلام ، فقہ اور مذہبی نظریات میں مہارت رکھتا ہوں. میں آپ کے اصحاب اور شاگردوں سے مباحثہ کرنے آیا ہوں۔”

امام ؑ نے فرمایا:” کیا تمھارا علم اور تمھارے دلائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی احادیث پر مبنی ہیں یا یہ سب تمھاری ذاتی سوچ اور فکر ہے؟”
شامی نے کہا: “کچھ میری فکر پر مبنی ہے اور کچھ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ پر مبنی ہیں۔”

امامؑ نے فرمایا:”تو پھر کیا تم خود کو رسولؐ کی نبوت میں شریک قرار دیتے ہو؟”
اُس نے جواب دیا:”جی نہیں ایسا نہیں ہے۔”
امام ؑ نے دوبارہ سوال کیا:” کیا تمھاری اطاعت رسول اللہ کی اطاعت جیسی ہے؟”
اُس نے کہا “نہیں۔”
امام ؑ نے میری طرف رُخ کرتے ہوے کہا: “اِس شخص نے اس سے پہلے بھی ہم سے مباحثہ کیا ہے اور خود ہی تنازعہ کا شکار ہوا ہے اور اپنے دعوے کے بر عکس اظہار کیا ہے۔”

پھر امام ؑ نے کہا :” اے یونس! کیا تم خود کو علم کلام میں خود کو اس سے بہتر ثابت کرسکتے ہو؟ کیا اس سے بحث کرنے کو تیار ہو؟”

یونس نے کہا: “میں معزرت چاہتا ہوں آقا، آپ ہی نے حکم دیا ہے کہ علم کلام کے کسی بھی مباحثہ میں شریک نہ ہونا اور آپ نے کہا تھا کہ: اے کلامیو! ( اُن لوگو ں کو جو کلام میں مباحثہ کے لئے اسلامی نظریات پر عمل نہیں کرتے اور نہ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اور نہ ہی ائمہ کی روایات کی روشنی میں مباحثہ کرتے ہیں) اُس مباحثہ میں شریک مت ہونا اور خاص طور سے اُس وقت جب تم اُ س کے بارے میں کچھ علم نہ رکھتے ہو۔

امام ؑ نے فرمایا:” ہاں ہم نے منع کیا مگر اُن کو منع کیا ہے جو اپنی فکرو استدلال کی بنا پر مباحثہ کرتے ہیں۔ اورہماری اطاعت اُس میں شامل نہیں ہوتی۔ یعنی دین کے ستون کو نہیں مانتے۔
پھر امام ؑ نے مجھ سے کہا: “باہر جاو اور جو بھی تمھیں ہمارے گروہ کا کلامی دکھائی دے اُسے لے آو۔”

میں باہر آیا تو میں نے حمران بن اعین کو دیکھا جو کہ مباحثہ اور مکالمہ میں بہت ماہر تھے ۔ میں اُنھیں امام ؑ کے پاس لے آیا ۔ پھر ہشام بن سالم کو اور آخر میں قیص معاسر کو بھی لے آیا ۔ میرے قریب قیص معاسر سب سے زیادہ عقلمند تھے ۔ اور علم کلام ، مکالمہ ، مباحثہ کے فن میں مہارت رکھتے تھے اور یہ تمام چیزیں انھیں حضرت امام زین العابدین ؑ نے سکھائی تھیں۔

یہ موسمِ حج سے کچھ روز پہلے کی بات ہے۔ امام ؑ کا خیمہ مسجد الحرام کے قریب، پہاڑ کے دامن میں نصب تھا۔ امامؑ خیمہ سے ٹیک لگا کر کھڑے ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک ایک شخص اُونٹ پر سوار ظاہر ہوا۔ اور وہ بڑی تیزی سے ہماری طرف آرہا تھا امام ؑ نے کہا،”قسم ہے ربّ کعبہ کی یہ ہشام ہے۔”

شروع میں ہم نے سوچا، ہو سکتا ہے کہ عقیل کے فرزندوں میں سے ہو، جس کا نام ہشام ہے جنھیں امام ؑ بہت محبوب رکھتے ہیں ۔لیکن جب وہ قریب آیا تو ہم سمجھ گئے کہ یہ کوئی اور نہیں ہشام بن حکم ہیں جو کہ نہایت ہی جوان ہیں اور ہم تمام لوگوں میں سے ان کی عمر سب سے کم ہے۔امامؑ نے ان کا خیر مقدم کیا اور استقبال کیا۔ پھر آپ ؑ نے فرمایا “قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو دل سے ہمارا دفاع کرتے ہیں۔ اپنی پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ۔”

یونس کہتے ہیں:” امام ؑ نے اپنا رُخِ مبارک حمران کی جانب موڑا اور فرمایا۔ اُس شامی سے بحث کرو۔ حمران اُسے مغلوب نہیں کر سکے۔ پھر امام ؑ نے ہشام بن سالم سے کہا اُس کا بھی کوئ مثبت نتیجہ نہیں نکل پایا۔ پھر امامؑ نے قیص معاسر کو حکم دیا ۔ جب قیص مصروف بحث تھے تو امام ؑ مسکرا رہے تھے جبکہ شامی کی پیشانی پر پسینہ صاف نظر آرہا تھا۔

پھر آخر کار امام ؑ نے شامی سے مخاطب ہوکرفرمایا:”کیا تم اس جوان سے بھی مباحثہ کرنا چاہو گے جس کا نام ہشام ہے؟” شامی نے امام ؑ کی بات کو قبول کر لیا۔ ہشام کی کم عمری کو دیکھ کر اس نے بڑےہی تلخ لہجے میں ہشام سے کہا:”اے لڑکے اگر تیرے پاس تیرے امام ؑ کی امامت کی دلیل کے لئے کچھ ہے تو مجھ سے بول!” ہشام اُس کے اس لہجےکو سُن کر غصّہ سےتھر تھرا نے لگے ۔ اور بولے:”اے شخص کیا تو سمجھتا ہے کہ تیرے خدا نے تمام مخلوقات کو خلق کرکے یوں ہی بے مقصد چھوڑ دیا ہے۔ اور اُن کو بغیر کسی ہادی یا رہبر کے رکھا ہے؟ کیا اُس نے اپنی عنایتیں اُن پرکی ہیں اور اُنھیں بغیر حجّت کے خالی نہیں چھوڑا ہے تاکہ وہ گمراہ نہ ہوجائیں؟”

شامی نے کہا:”یقیناً خدا اپنی مخلوق پر بڑا مہربان ہے۔ اُس نے اپنی مخلوقات کو یوں ہی نہیں چھوڑا ہے۔” ہشام نے کہا:”اگر تم جیسا کہہ رہے ہو ویسا ہے تو پھر اس رہبری اور رہنمائی کی شرطیں کیا ہیں؟” ۔شامی نے جواب دیا:”خدا نے انسانوں میں اپنی حجّت معیّن کی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف نہ کریں اور انتشار و فساد سے دور رہیں ۔اس کے علاوہ وہ آپس میں پیار محبّت سے رہیں اور ایک دوسرے سے دوستی قائم کریں۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ ہادی ان کے لیے خدا کے احکام بھی بیان کرے۔”

ہشام نے سوال کیا:”تو یہ ہادی اور رہبر کون ہے؟”
شامی نے جواب دیا وہ اللہ کے رسولؐ ہیں” ہشام نے دوبارہ سوال کیا:”اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگیے ہیں تو اس وقت کون ہے جو ہدایت کے فرائض انجام دے رہا ہے؟”

شامی نے کہا:”قرآن اور احادیث پیغمبر۔”
ہشام نے کہا:”چونکہ رسول اللہ کی وفات کو ایک عرصہ گزر چکا ہے تو تمھیں کیا لگتا ہے قرآن و احادیث مل کر لوگوں کے مسئلہ حل کر رہے ہیں؟”
شامی نے کہا: “ہاں کیوں نہیں یہ دونوں کافی ہیں۔”

ہشام نے کہا:”اگر تم جیسا کہہ رہے ہو ویسا ہے تو پھر ہمارے اور تمھارے درمیان یہ اختلاف کیوں؟ اور تم اتنا طویل سفر طے کرکے شام سے یہاں کیوں آئے ہو؟”

یونس کہتے ہیں کہ جب بحث اس نقطہ پر پہنچی تو شامی خاموش ہو گیا اور اپنی گردن نیچے جھکا لی ۔
امامؑ نے اُس سے پوچھا کہ تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟

اُس نے کہا:” میں کیا کہوں میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔اگر میں کہتا ہو کہ ہمار ے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے تو میں جھوٹا ہوں ۔اور دوسری رو سے اگر میں کہتا ہوں کہ قرآ ن اور احادیث پیغمبر کافی ہیں مشکلات کے حل کے لئے تو یہ بھی غلط بیانی ہے ۔ اور یہ اس بنا پر کہ قرآن اور احادیث کے معنی کو کوئ صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں ہے۔ اسی نقطئہ نظر سے کہ ہم میں سے ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارا عقیدہ صحیح ہے تو اس حساب سے قرآن و حدیث کا کیا فائدہ؟ یہ بحث میرے کچھ فائدے کی نہیں۔

امام ؑ نے اس سے فرمایا:”ہشام سے ہی اپنے مسئلہ کا حل پوچھو۔”
شامی نے اپنا رُخ ہشام کی طرف کیا اور کہا ۔
“اے ہشام! تم بتاو کہ لوگوں کا اولوالامر کون ہے؟ان کا ہادی کون ہے؟ مجھے تم بتاو کیا خالق اُنھیں ہدایت دیتا ہے یا لوگ خود اس کے ذمّہ دار ہیں؟
ہشام نے جواب دیا ان میں سے دونوں بات صحیح نہیں ہے ۔ بلکہ اللہ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے اُنھیں کے درمیان سے ہادی منتخب کیے ہیں۔شامی نے سوال کیا:”اس نے کن افراد کو ہدایت کے لیے منتخب کیا ہے؟ یہ کون افراد ہیں جو لوگوں کو آپسی اختلافات کو دور کرکے انھیں ایک جگہ جمع کریں اور آپس میں صلح و آشتی کا پیغام دیں اور صحیح راستے کو غلط سے جدا کریں تاکہ عدل و انصاف ہو۔

ہشام نے کہا:”تم کس دور کی بات کر رہے ہو- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کی بات کر رہے ہو یا زمانہ حاضر کی؟؟”
شامی نے کہا:” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تو خود رسولؐ اللہ تھے ان تمام مسائل کو حل کے لئے۔ میں اس دور کی بات کر رہا ہوں۔”

ہشام نے بڑے ہی ادب و احترام سے اپنا رُخ امامؑ کی جانب کیا اورکہا :”آج کے دور میں اگر کوئی روحانی شخصیت ہے جس کے ذمّہ لوگوں کی ہدایت ہے تو وہ یہ ہیں جن کی موجودگی میں ہم یہاں کھڑے ہیں ۔پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں ان سے علم حاصل کرنے کے لئے اور یہی وہ شخصیت ہیں کہ جنھوں نے علم کی وراثت اپنے آباو اجداد سے پائی ہے جس کے ذریعہ سے یہ سب لوگوں کو جنّت اور جہنم کے فرق کو بیان کرتے ہیں ۔
شامی نے کہا:”میں کیسے یقین کروں کہ تمھاری بات صحیح ہے؟”

ہشام نے کہا:” امامؑ سے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھ لو یا اپنے اس طویل سفر کے بارے میں کوئ بات دریافت کرلو۔”
شامی نے کہا:”اگر ایسا ہے تو پھر میرے لیے کوئی مشکل نہیں۔”
پھر امام ؑ نے ایک کے بعد ایک تمام چیزیں بیان کرنا شروع کردیں جو شام سے لے کر مکہ کے سفر میں اس کے ساتھ پیش آئیں ۔
امامؑ جو کچھ بھی بیان کر رہے تھے ہر ایک بات کو شامی بڑے غور سے سن رہا تھا۔ آخر میں امام ؑ سے مخاطب ہوا کہنے لگا،”جو کچھ آپ نے کہا وہ صحیح ہے اور اب میں (صحیح طور سے) مسلمان ہو گیا ہوں۔”

امام ؑ نے فرمایا:” یہ نہ کہو کہ میں مسلمان ہو گیا بلکہ یہ کہو کہ میں ایمان لایا ہوں۔ تم پہلے بھی مسلمان تھے لیکن اسلام کے ظاہری قوانین پر عمل کرتے تھے شادی اور میراث کے متعلق بس۔ اب یہ ضروری ہے کہ تم ہم اہلبیت ؑ کو تسلیم کرو کیونکہ اللہ کی طرف سے ثواب اور آخرت میں جزا صرف ہماری اطاعت اور ہماری امامت کو قبول کرنے سے ہی حاصل ہوگی اور اب تک تم اس نعمت سے محروم تھے۔”

شامی نے امام ؑ کی باتوں کو قبول کیا اور کہا صرف اللہ ہے جس کی عبادت کی جائے اور حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے نبی ہیں اور یقیناً آپ رسول اللہ کے جانشین ہیں اور حقیقی خلیفہ ہیں۔”
حوالہ: رجال کشّی صفحہ 125 از بحار الانوار جلد 47 صفحہ 408