زیارت اربعین اور پیادہ روی

“اُدْخُلُوْھٙا بِسٙلٙام آمِنِین”

اہل اسلام میں جتنا اہل تشیع کے یہاں بزرگان دین کی زیارت کا رواج ہے،اتنا کسی دوسرے مسلک میں نہیں پایا جاتا۔ اہل تشیع کے یہاں ائمہ اور معصومین کے مزارات نہ صرف یہ کہ مقدس مقامات اور عبادت گاہوں کا مرتبہ رکھتے ہیں بلکہ ان کی حیثیت زیارت گاہوں اور دینی مراکز کی بھی ہے۔ اتنا ہی نہیں، ان مقامات کے عزم سفر اور سفر کو بھی ثواب کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔ ائمہ معصومین کی روایات میں بھی اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ ان معصوموں کی زیارات کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات راہ خدا میں خرچ ہونے والے اخراجات کا درجہ رکھتے ہیں۔ یعنی ان اخراجات کے لیے بھی ثواب معین ہے۔

کتاب کامل الزیارات اور اس طرح کی دیگر کتابوں میں مثلا ثواب الاعمال، وسائل الشیعہ، الکافی وغیرہ میں ان روایات کا باقاعدہ ذکر ملتا ہے۔ ان تمام روایات میں جو روایات حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت سے منسوب ہیں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

زیارت اربعین
جتنا زیادہ مجمع اربعین کے موقعے پر ہوتاہے،اتنا دیگر مواقع پر نہیں ہوتا۔ ویسے تو بروز عرفہ اور نیمہ شعبان پر بھی روضہ امام مظلوم زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہےاور ان مواقع پر حرم مطہر کی زیارت کی زیادہ فضیلت بھی کتابوں میں درج ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ ان موقعوں پر بھی امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں اتنا مجمع نہیں ہوتا،جتنا اربعین میں ہوتا ہے۔ اربعین سال کا وہ موقع ہے،جس میں عراقی اور غیر عراقی مومنین کثیر تعداد میں سیدالشہدا علیہ السلام کا چہلم منانے کے لیے کربلائے معلٰی میں جمع ہوتے ہیں اور عراقی عوام بالخصوص کربلا اور نجف کے مومنین زائرین کی خدمات کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

زیارت اربعین کی فضیلت کے لیے امام حسن عسکری علیہ السلام کی یہ حدیث کافی ہے کہ اس کا شمار علامات شیعہ میں ہوتا ہے (وسائل الشیعہ جلد 10 از مفاتیح الجنان : زیارت اربعین) ۔

زیارت اربعین کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ بہت سے زائرین امامؑ مظلوم کے حرم کی طرف پیدل سفر کرتے ہیں۔ اس پیادہ روی کی ابتدا نجف کے بزرگ عالم دین شیخ مرتضیؓ انصاری نے کی پھر ایک وقفے بعد محدث میرزا حسین نوریؓ نے تحریک پیدا کی اور حوضہ نجف کے بعض علماء نے اسے فروغ بھی بخشا، نتیجتًا ان کی پیروی میں عوام نے اسے اپنالیا اور اس طرح زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے پیادہ روی کا ثواب عوام پر آشکار ہوگیا۔ اور اب سالہائے سال مستقل دنیا بھر سے زائرین نجف سے کربلا کے مابین تین دن پیادہ روی کرتے ہیں۔

*زیارت کے لیے پیدل چلنے کا ثواب
اسلام میں مقدس مقامات کی طرف پیدل چلنے کا ایک الگ ثواب بتایا گیا ہے۔مسجد میں جانے کا ثواب اپنی جگہ مسجد میں نماز ادا کرنے کی اپنی فضیلت ہے مگر مسجد پیدل چل کر جانے کا الگ ثواب ہے۔ اسی طرح نماز عیدین کا ادا کرنا ثواب ہے،مسجد میں جاکر اس نماز کی باجماعت ادائیگی کا الگ ثواب ہے اور اس نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد پیدل چل کر جانے کا الگ ثواب ہے۔ ان باتوں کا ذکر معتبر کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ صاحب بحارالانوار علامہ مجلسیؓ نے اس کو اپنی کتاب تہزیب الاسلام میں نقل کیا ہے تو عالم بزگ شیخ حر آملیؓ نے ان روایات کو اپنی ذخیم کتاب وسائل الشیعہ میں نقل کیا ہے، بطور نمونہ یہاں پر دو روایات پیش کر رہے ہیں۔

امام علی رضا علیہ السلام کا فرمان ہے:”جب کوئ پیدل مسجد کی طرف جاتا ہے،( اس دوران) اس کے ہر ہر قدم پر ،جو وہ خشکی یا تری میں رکھتا ہے، زمین کے ساتوں طبقے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔”
وسائل الشیعہ جلد 5 صفحہ 200۔

اسی طرح کی ایک اور روایت اس باب میں حضرت ختمی مرتبت سے اس طرح نقل ہوئ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:”جب کوئ مسجد کی طرف پیادہ روی کرتا ہے تو اس کے ہر قدم کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں دس حسنات لکھے جاتے ہیں، اس کے دس گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور اس کے درجات میں دس درجے کی بلندی ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس نہیں آجاتا”
وسائل الشیعہ جلد 5 صفحہ 201

اس کے علاوہ تاریخ میں مشہور بات ہے کہ حسنین علیہما السلام امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سواری ہونے کے باوجود حج کے لیے پیدل چلا کرتے تھے۔ آپؑ نے اس طرح کئ حج اپنی زندگی میں پیدل کیے ہیں۔ دیگر ائمہ معصومین مثلًا امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ آپؑ نے حج کا سفر پیدل بھی کیا ہے۔ اس طرح زیارت گاہوں اور مقدس مقامات کی طرف پیدل چلنا کوئ نیا رواج نہیں ہے بلکہ یہ عمل ائمہ علیہم السلام کی سنت رہا ہے۔ کتاب وسائل الشیعہ میں شیخ حر آملیؓ نے اس بابت ایک باب مرتب کیا ہے جس میں آپ نے ان روایات کو جمع کیا ہے جن میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل چلنے کا ثواب نقل ہوا ہے۔ اس باب سے یہاں تین روایات بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

امام جعفر الصادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی (جن کا نام حسین تھا)سے فرمایا:” اے حسین! جو اپنے گھر سے زیارت حسین ابن علی علیہما السلام کی زیارت کے قصد سے پیدل نکلتا ہے تو اللہ ہر قدم کے بدلے ایک نیکی اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے اور اس میں سے ایک گناہ کو مٹادیتا ہے یہاں تک کہ امام علیہ السلام کی قبر کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔ تب اللہ اس کا نام نجات پانے والوں اور فلاح پانے والوں میں لکھ دیتا ہے۔ جب وہ تمام مناسک زیارت کو پورا کرلیتا ہے تو اس کا نام فائزین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جب وہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہونے کا قصد کرتا ہے تو ایک ملک اس کے پاس آکر کہتا ہے: ” (اے مومن) رسول اللہ نے تجھ کو سلام کہا ہے اور یہ نصیحت کی ہے کہ اب اپنے اعمال کو نیک رکھنا کیونکہ اللہ نے تیرے ماضی کے سارے گناہ بخش دیے ہیں۔”(وسائل الشیعه، جلد 14 صفحہ 439)

اسی طرح مندجہ ذیل روایت میں بھی ہر قدم پر ایک عظیم ثواب کا ذکر ہوا ہے۔
امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب کوئ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل نکلتا ہے تو ہر قدم جو وہ اٹھاتا یے یا رکھتا ہے اس کی جزا اللہ اسے اتنی دیتا ہے جتنا اولاد اسماعیلؑ میں سے ایک غلام کو آزاد کرنےکاہوتاہے۔”
(وسائل الشیعہ جلد 14 صفحہ 441)

آخر میں اس روایت کو پیش کرتے ہیں اور بارگاہ خدا وندی میں دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم سب کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شرف عطا کرے اور اس زیارت میں پیدل چل کر اپنے آپ کو اس ثواب اور جزا کا مستحق بنالیں جو اللہ نے اپنے مخصوص بندوں کے لیے رکھا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام:
مَنْ أَتَى قَبْرَ الْحُسَیْنِ ع مَاشِیاً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ وَ مَحَا عَنْهُ أَلْفَ سَیِّئَةٍ وَ رَفَعَ لَهُ أَلْفَ دَرَجَةٍ۔
جو کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے پیدل جائے تو الله تعالی ہر اس قدم کے بدلے میں جو وه اٹھاتا ہے اس کے لیے: ہزار نیکیاں لکھتا ہے۔ ہزار گناه مٹا دیتا ہے۔اور اس کا مرتبہ ہزار درجے بڑها دیتا ہے۔
(وسائل الشیعه، جلد 14، صفحہ 440)