کیا صرف 'اہل کوفہ' ہی بے وفا ہوتے ہیں؟؟

کیا صرف ‘اہل کوفہ’ ہی بے وفا ہوتے ہیں؟؟

مسمانوں کی تاریخ میں جب کبھی بھی بے وفائ اور عہد شکنی کی مثال دینی ہوتی ہے تو لوگ صرف اہل کوفہ کی مثال دیتے ہیں۔ اس کا سبب کربلا کا سنہ ٦٠ ہجری کا وہ واقعہ ہے جس میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان کے کئ افراد کی دردناک شہادتیں واقع ہوئیں۔ یہ اہل کوفہ ہی تھے جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھ لکھ کر بلایا اور پھر ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ شام کے لشکر میں شامل ہوکر امامؑ کے خلاف جنگ کی اور انھیں قتل کیا, تاریخ کے صفحات پر یہ بات ثبت ہے۔ اتنا ہی نہیں تاریخ میں ان کے اور بھی سنگین جرائم نقل ہوئے ہیں۔ اس شہر کے لوگوں نے سبط اکبر امام حسن علیہ السلام سے دغابازی کی جس کی بنا پر صلح کا واقعہ پیش آیا۔ پھر یہی لوگ تھے جنھوں نے اپنے مہمان اور سفیر امام حسینؑ جناب مسلم سے دغا کی اور ان کو یکہ و تنہا چھوڑ دیا جس کے سبب آپ کو ابن زیاد ملعون نے غریب الوطنی کی حالت میں شہید کر دیا۔ یہ سارے جرم سنگین سے سنگین تر ہیں اور ان تمام معاملات میں ان لوگوں کی عہد شکنی اور بے وفائ ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی اس بے وفائ کی کوئ وکالت نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کے لیے کوئ عزر پیش کیا جاسکتا ہے۔
مگر ان سے زیادہ بے وفا اور عہد شکن افراد بھی اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں۔ اور یہ لوگ مدینے کے وہ اشخاص ہیں جن کو ‘اصحابِ رسولؐ’ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ ان کی بے وفائ اور عہد شکنی کی داستان قرآن اس طرح بیان کرتا ہے۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ
(سوره التوبة:١٠١)
آپ کے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور مدینہ کے وہ لوگ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں۔ آپ ان کی حقیقت جانتے نہیں مگر ہم خوب جانتے ہیں اس لیے ہم ان پر دہرا عذاب نازل کریں گے اور بالآخر یہ عذاب عظیم میں مبتلا کیے جائیں گے۔

یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے امت مسلمہ میں اہلبیت رسولؐ کے تئیں بے وفائ کے بیج بوئے۔ ان کی عہد شکنی کی سب سے زیادہ واضح مثال سن ١١ ہجری میں ظاہر ہوتی ہے جب سرورؐ کائنات اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ بلا کسی خوف و جھجھک کے ‘اہل سقیفہ’ نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت شہر مدینہ حکومت اسلام کا مرکز تھا۔ اس بات کو اہل مدینہ بخوبی جانتے تھے کہ خلافت اور ولایت پر صرف علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا حق ہے اور اس بات کا اعلان خود پیغمبرؐ اسلام نے غدیر میں فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر دوسری سب سے اہم روایت ‘حدیث ثقلین’ کے زیادہ تر راویان مدینے کے افراد ہی ہیں۔ اس طرح مدینے کے رہنے والے مہاجرین و انصار سب اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اسلام میں آلِ رسولؐ کی کیا عظمت ہے۔ اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا اپنے اہلبیتؑ کی بزرگی اور منزلت کی نشاندہی کی۔ اس شہر میں وہ لوگ بھی مقیم تھے جن کو اسلام میں ‘سابقین’ کی سند ملی ہے۔ یہ اہل بدر و اہل احد تھے۔ان لوگوں نے بارہا سرور کائنات کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرے بعد تمہارا سید و سردار علیؑ ہیں۔ پیغمبر اسلام نے متعدد مواقع پر ان لوگوں سے وصیت فرمائ ہے کہ “اذکرکم باہلبیتی! اذکرکم باہلبیتی!! (میں تم کو اپنے اہلبیت کے متعلق وصیت کرتا ہوں)”

مگر افسوس جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ بند ہوئ انھوں نے یہ سب بھلا دیا اور اسی مدینے میں اہلبیتِ رسول پر مظالم ڈھائے گئے اور پورا مدینہ خاموش رہا۔ رسولؐ کی بیٹی مہاجرین و انصار کے گھر گھر جاکر انھیں علیؑ کی ولایت یاد دلاتی رہی مگر کسی نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔ اہل کوفہ نے تو رسول کے نواسے سے ۵٠ سال بعد دغابازی کی تھی جبکہ اہل مدینہ نے رسولؐ اللہ کی آنکھ بند ہوتے ہی دختر رسولؐ کے حق کو پامال ہوتے دیکھا اور کچھ نہیں کیا۔ داماد رسول کے گلے میں ریسمان ظلم باندھ کر دربار تک کھینچا گیا مگر مدینے کے کسی فرد نے ان کی حمایت نہیں کی۔ ان سب نے رسول کے اقوال و احادیث کو فراموش کردیا۔

تاریخ میں یہ بھی محفوظ ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کو ظاہری خلافت ملی تو یہ مدینے کے لوگ ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے ان کے خلاف سرکشی کی اور جنگ جمل واقع ہوئ۔ اتنا ہی نہیں جب امیر المومنین کو باغیوں سے جنگ کرنے کے لیے لشکر کی ضرورت ہوئ تو مدینے والوں نے آپؑ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس وقت آپؑ کو کوفے کا رخ کرنا پڑا جس کے سبب آپؑ کے لشکر میں اکثریت کوفے والوں کی تھی۔ اس لیے بھی مولائے کائنات کو مدینہ چھوڑ کر شہر کوفہ کو اپنا دارالامارہ بنانا پڑا۔

اب محترم قارئین خود فیصلہ کریں کہ سب سے پہلے اورسب سے بڑی بے وفائ کوفے والوں نے کی ہے یا مدینے والوں نے۔