‘اتحاد بین المسلمین’ کیونکر ممکن ہے؟

ماہ رمضان کے آخری عشرے کے آغاز میں پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر مولا علیؑ کی شہادت سے متلعق پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ عمومًا ان پروگراموں میں اسلام کے مختلف مکاتب فکر اور مذاہب کے علماء کو دعوت دی جاتی ہے اور موضوع ہوتا ہے ‘فضائل اور مناقب علیؑ ابن ابی طالبؑ’۔ ان پروگراموں میں کبھی کبھی پینلسٹ میں آپس میں مولا علیؑ کے فضائل کے کسی گوشے کو لیکر بحث بھی ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں اہل تسنن کے ایک عالم نے ‘اتحاد بین المسلمین’ کی بات چھیڑ دی۔ ویسے تو یہ بات اصل موضوع سے ہٹ کر تھی، مگر اسے طول دیا گیا۔ پینلسٹ میں سے ایک عالم نے اتحاد کے عنوان پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ “مسلمانوں کو متحد ہونے سے ان دو طرح کے لوگوں نے روکا ہے بلکہ یہی دونوں مسلمانوں کے درمیان فتنے کا سبب ہیں۔ ایک ‘خوارج’ اور دوسرے ‘رافضی’۔” ان کے حساب سے یہ دونوں گروہ خلفاء راشدین اور صحابہ کو برا کہتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں۔ اسی سبب سے مسلمانوں میں آپسی میل جول نہیں ہو پاتا۔ ان کی آدھی بات تو صحیح ہے کہ خوارج کی فکر نے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے مگر انھوں نے اسلامی سماج کے ایک اہم فتنہ انگیز ذہنیت رکھنے والے عنصر کا نام نہیں لیا اور وہ ہیں ‘ناصبی’ یعنی اہلبیتؑ پیغمبرؐ سے دشمنی رکھنے والے افراد۔

در حقیقت یہی لوگ تمام مسلمانوں کے دشمن ہیں اور ان کے آپسی اتحاد کے مانع ہیں۔ شیعہ حضرات چونکہ برملا اپنے آپ کو اہلبیتؑ نبیؐ کا پیروکار کہتے ہیں، اس لیے ناصبیوں کی نگاہ میں بہت کھٹکتے ہیں۔ شیعہ اہلبیتؑ کی ہر فرد کی پیدائش خصوصًا پنجتن کے روز ولادت پر جشن مناتے ہیں، جس میں ان کے فضائل و مناقب زوروشور سے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مسلمانوں سے ہٹ کر ان کے یہاں دو مزید عیدیں ہیں (عید غدیر اور عید مباہلہ) جو خصوصی طور سے اہلبیتؑ کی فضیلت میں منائ جاتی ہیں۔ اسی طرح ماہ محرم و صفر میں شہداء کربلا کا سوگ بھی شیعوں کے یہاں بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ ان ایام عزا میں جہاں اہلبیت کے مصائب بیان ہوتے ہیں وہیں ان پر ظلم کرنے والوں سے اظہارِ براءت بھی کیا جاتا ہے۔ یزید اور اس جیسے ناصبیوں پر لعنت کی جاتی ہے۔

یہ تمام باتیں ہر زمانے کے ناصبیوں کو ناپسند رہی ہیں۔ اس وجہ سے انھوں نے پوری کوشش کی کہ شیعوں کو دوسرے مسلمانوں سے الگ کر دیا جائے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ انھوں نے اہل تسنن میں شیعوں سے متعلق بے بنیاد اور جھوٹی باتیں پھیلائیں مثلًا یہ کہ شیعوں کے قرآن میں چالس پارے ہیں یا وہ مولا علیؑ کو خدا مانتے ہیں یا یہ کہ وہ خاک شفا کو سجدہ کرتے ہیں وغیرہ۔ اس طرح انھوں نے شیعوں کو دوسرے اسلامی فرقوں کے لیے اچھوتا بنادیا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ ‘رافضی’ اور ‘کافر’ ہو گئے ہیں جبکہ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ شیعوں کا قرآن وہی ہے جو دوسرے مسلمانوں کا ہے، کعبہ ان کا بھی قبلہ ہے جس کی سمت رخ کرکے دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی نماز ادا کرتے ہیں اور انھیں کی طرح ان کے ساتھ حج کے ارکان ادا کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اہل تسنن کے یہاں معتبر ترین سمجھی جانے والی کتابیں ‘صحاح ستہ’ میں بہت سی احادیث کے راوی شیعہ ہیں۔ کتاب ‘المراجعات’ میں ان کے باقاعدہ نام بیان کیے گئے ہیں۔

خود اہل تسنن کی ‘الازہر یونیورسٹی’ کے ایک بزرگ استاد شیخ الہلالی نے ایک کانفرنس میں ان راویوں کی تعداد تقریبًا ١۴٠ بتائ ہیں۔ ان باتوں کا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سنّیوں کے بزرگ علماء نے شیعہ راویوں کے عقائد کو جانتے ہوئے بھی ان کو روایات کے معاملے میں سچا اور معتبر قبول کیا ہے۔ مگر افسوس گزشتہ زمانوں کی طرح آج بھی ناصبیوں نے اہل تسنن کی مساجد میں اور ان کی صفوں میں شامل ہوکر ان کو شیعوں کے خلاف آمادہ کیا۔

یہاں پر اپنے قارئین کو اس بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ان ناصبیوں کی دشمنی صرف اہلبیت اطہار سے یا شیعوں سے ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص سے ہے جو اہلبیتؑ کے فضائل بیان کرتا ہے پھر وہ کوئ بھی ہو۔ انھوں نے اپنے اس نفرت کی آگ میں اہل تسنن کی بھی بہت سی بستیوں کو جلا ڈالا ہے۔ ان ناصبیوں نے صرف شیعوں کی مساجد اور امام باڑوں میں ہی بم دھماکے اور فائرینگ نہیں کی ہے بلکہ اہل تسنن کی عبادت گاہوں پر بھی حملے کیے ہیں۔
شیخ احمد بن شعیب نسائ، اہل تسنن کے ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں۔ ان کی ایک کتاب ‘سنن نسائ’ کا شمار ‘صحاح ستہ’ میں ہوتا ہے۔ اس بزرگ سنی عالم کو شام کے ناصبیوں نے صرف اس بات پر قتل کردیا کہ انھوں نے ‘خصائص امیر المومنین’ نام سے ایک کتاب مرتب کی جس میں انھوں نے حضرت علیؑ کے فضائل جمع کیے ہیں۔ (تہذیب الکمال ١/٣٣٨-٣٣٩)۔

ناصبیوں کی اس اہلبیت دشمنی نے اہل تسنن کا زیادہ نقصان کیا ہے۔ ان کے یہاں اہلبیتؑ کی مدح کرنے والے عاشقانِ رسول اور آلِ رسولؐ کو ‘رافضی’ اور ‘شیعہ’ ہو جانے کے الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں آج کے دور میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔

اہل تسنن (سنیوں) کے چار مصلے کے ایک امام- امام محمد بن ادریس جو امام شافعی کے لقب سے معروف ہیں اور سنی فقہی مذہب شافعی کے بانی ہیں۔ ان کا ایک مشہور شعر ملتا ہے جس میں وہ اپنے عہد کے ناصبیوں کے چہروں کو بے نقاب کرتے نظر آتے ہیں۔امام شافعی کہتے ہیں :
“إن كان رفضاً حب آل محمد ، فليشهد الثقلان أنا رافضي”
“اگر آلؑ محمدؐ کی محبت رافضیت ہے تواے جن و انس گواہ رہو کہ میں رافضی ہوں۔”
ان اشعار پر ایک اور بزرگ سنی عالم ذہبی نے باقاعدہ تبصرہ بھی کیا ہے۔
(تاريخ الإسلام للذهبي الجزء الرابع عشر الصفحة 338-337 )

اس فتنہ پرور گروہ کا قبیح ترین فعل یہی رہا ہے کہ انھوں نے اہلبیتؑ سے اپنی دشمنی کو ان کے چاہنے والوں کے ساتھ نکالا ۔ اگر کوئ اہلبیت کا عاشق سنی مسلک کا ہے تو اس پر شیعہ اور ‘رافضی’ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے تاکہ وہ اہلبیت کے فضائل بیان کرنا چھوڑ دے ورنہ سنی اس کو شیعہ بتاکر اپنے سے الگ کردیں گے اور اگر وہ عاشق اہلبیتؑ شیعہ ہے تو اس پر غالی اور مشرک ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ پھر انھیں تکفیری ناصبیوں نے سنیوں کو شیعوں سے دور رکھنے کے لیے یہ نعرہ بھی ایجاد کر دیا کہ ‘شیعہ کافر ہیں’۔

الحمد للہ، اہل تشیع میں یہ ناصبیت کی بیماری نہیں ہے۔ یہ مسئلہ اہل تسنن کے یہاں بہت زیادہ ہے۔ آج کے دور میں وہابی فکر اس کی بہت بڑی مثال ہے۔ یہ لوگ خود کے علاوہ ہر ایک کو کافر کہتے ہیں۔ دوسروں کی مسجدوں پر حلمہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کی جان و مال کا احترام نہیں کرتے۔ قبور کی بے حرمتی کرتے ہیں حتّی کہ اہلبیتؑ کے مزارات کو بھی منہدم کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جب تک کہ اس طرح کی ناصبی فکر اور نظریہ، اسلامی سماج سے نہیں نکلے گا شیعہ سنی آپس میں لڑتے رہیں گے اور ان کا آپس میں اتحاد ہوپانا نا ممکن ہوگا۔اس لیے اگر مسلمانوں کو آپس میں اتحاد قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنی صفوں سے ان ناصبیوں کو باہر کرنا پڑے گا کیوں کہ اتحاد بین المسلمین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وبیماری خوارج ونواصب اور ان کے افکارونظریات ہیں در اصل مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے مقصد سے انھیں وجود میں لایا گیا ہے۔ اگر تمام مسلمان محبت اہل بیت (علیہم السلام) پر جمع ہوجائیں اور ناصبیت کے ‘وجود ناپاک’ کا بائکاٹ کر دیں تو ‘اتحاد بین المسلمین’ کی راہ خود بہ خود ہموار ہوجائگی۔ جب ناسور ہی نہ ہوگا تو بیماری خود بخود ختم ہو جائگی ۔