رسولؐ خدا کی شہادت کے بعد جب خلیفہ اول کے لیے جبرا بیعت لی جارہی تھی اس وقت خاندان رسالت پر بھی مظالم ڈھائے گئے۔ ان واقعات میں ایک یہ بھی تھا کہ ‘بیت الشرف’ یعنی علیؑ و فاطمہؑ (صلوات اللہ و سلامہ علیہما) کے گھر پر حملہ کیا گیا اور اس کے دروازے کو آگ لگا دی گئ۔ یہ واقعہ نہ صرف شیعوں نے نقل کیا ہے بلکہ متعدد اہل تسنن مورخین نے بھی اپنی اپنی تالیفات میں اسے رقم کیا ہے۔ اس کے باوجود بعض اہل تسنن علماء اس واقعے کے رونما ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اپنے خلیفہ کے جرم کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر جناب فاطمہؐ کو عمر اور ان کے ساتھیوں نے شہید کیا تھا تو مولا علیؑ نے اپنے دورِ اقتدار و خلافت میں اپنی زوجہ کے قاتلوں سے قصاص کیوں نہیں لیا؟؟ کیوں امیر المومنین (ع) نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ نہیں لیا؟
حالانکہ اس سوال سے ان نام نہاد علماء کا مقصد اس واقعے کا سِرے سے انکار کرنا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت علیؑ نے اپنے دور حکومت میں عدل و انصاف کی ایک عظیم مثال قائم کی تھی۔ آپؑ نے اسی بات پر حکومت قبول کیا تھا کہ وہ مظلوم کو اس کا حق دلاوائیں گے اور مسلمانوں کے مال کو دوبارہ بیت المال میں جمع کروائیں گے چاہے اس غصب کیے ہوئے مال سے بیواءوں کی شادی ، یتیموں کی پرورش یا اور کوئ کار خیر ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ لہذا یہ سوال معقول ہے کہ قرآن و شریعت کی اجازت کے باوجود جب حکومت ان کے ہاتھوں میں تھی تب حضرت علیؑ نے اپنی زوجہ کے قتل کا قصاص کیوں نہیں لیا؟ اس سوال کے کئ جواب دیے گئے ہیں مگر اختصار کو مد نظر رکھتے ہوے یہاں پر صرف اس بات کا ذکر کرنا کافی ہوگا کہ خود سرورِ کائنات – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد خود اپنی ذات پر ہونے والے ظلم کا نہ انتقام لیا اور نہ قصاص لیا۔ بلکہ آنحضرتؐ نے اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کا انتقام آخرت کے لیے موقوف کردیا اور یہ عین قرآن کی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔
“فمھل الکافرین امھلھم رویدا (طارق:١٧)”
کافروں کو روز قامت تک کی مھلت دی گئ ہے، اس روز خود عادل مطلق اللہ عزوجل ان کا حساب کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ وصی رسولؐ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ نے اس سنت رسولؐ پر عمل کرتے ہوے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے قصاص نہیں لیا۔
یہاں پر ہم ان واقعات کو بطور مثال پیش کریں گے جہاں مرسل اعظم (ص) نے اقتدار و طاقت ہونے کے باوجود قصاص لینے سے اجتناب کیا۔
١) فتح مکہ کے بعد قریش کے ان تمام لوگوں کو سید المرسلینؐ نے بخش دیا جہنوں نے ابتداے اسلام میں سرورِ عالم کو اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں اذیت دی۔
٢) اپنے چچا سید الشہداء جناب حمزہؓ کے قاتلوں کو یعنی خاندان ابوسفیان خصوصاً ہندہ کے غلام وحشی کی جان بخش دی اور ان سے اس قتل کا قصاص نہیں لیا۔
٣) مدینے میں عثمان بن عفان نے اپنی زوجہ جناب ام کلثوم کو اتنی شدت سے مارا تھا کہ چار دنوں کے اندر ہی ان کی شہادت واقع ہوگئ۔ جناب ام کلثوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پروردہ تھیں۔ آنحضرتؐ کو ان کی شہادت سے شدید رنج ہوا مگر آپؐ نے اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم کا قصاص نہیں لیا۔ (الکافی ج ٣ ص ٢۵٢)
۴) جنگ تبوک کی واپسی میں حضورؐ اکرم پر منافقین نے جان لیوا حملہ کیا۔ آپؐ نے ان سب کو بخوبی پہچان لیا اور ان سب کے نام بھی آپؐ نے اپنے قریبی صحابی حذیفہ یمانی کو بتائے مگر آپؐ نے ان میں سے کسی کو کوئ سزا نہیں دی اور نہ ہی قصاص لیا۔ (مسند احمد ابن حنبل ج۵ ص ۴۵٣، تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٨۴، تفسیر درالمنثور ج٣ ص ٢۵٩)
۵) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آبائ مکان جو مکہ میں تھا اس پر ان کے ایک چچا نے غاصبانہ قبضہ کرلیا تھا۔ فتحِ مکہ کے بعد رسالت مآبؐ نے نہ اس گھر کا قبضہ واپس لیا اور نہ ہی اپنے اس چچا سے کوئ قصاص طلب کیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار اور حکمِ قرآن کی موجودگی کے باوجود مرسلِ اعظمؐ نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے کبھی کوئ انتقام نہیں لیا۔ اس کا سبب صرف یہی تھا کہ آنحضرتؐ نے ان تمام مظالم کے قصاص کو روز قیامت کے لیے ملتوی کردیا جب الله تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب اور ان پر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ صرف حضرت امیرالمومنینؑ ہی نہیں بلکہ تمام اہلبیتؐ نے ہمیشہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے کوئ قصاص نہیں لیا۔