کیا تبرا کرنا ایک بے فائدہ عمل ہے؟؟

کہا جاتا ہے: مخالفین سے اس طرح کی بحثوں پر اتنی توانائی خرچ کی گئی کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمن اپنے گمراہ کن عقائد پر قاَئم ہیں۔ اور آپ ہزار وجوھات پیش کریں تو بھی وہ اپنے گمراہ کن عقائد کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔

لہذا، ہم اتنی محنت کیوں کریں، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے؟

جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

“تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ” سورہ کافرون ۱۰۹ آیت ۶

جواب :

تبرا پر بحث کے ٹھوس نتائج ہیں ۔ اولاً یہ دعوی کرنا درست نہیں کہ ایسی بحثیں بے مقصد ہیں اور نتیجہ خیز نہیں ہیں۔ در حقیقت وہ بہت ہی ثمر آور اور مفید پائی جاتی ہیں اور دوسری جانب سے بہت سے لوگ ہدایت پا کر اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار بن گئے ہیں۔

یہاں تک کہ ایک شخص کی رہنمائی
دوسری بات یہ ہے کہ ایک شخص بھی ہدایت یافتہ ہو جائے تو کافی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین علیہ السلام کو خبر دی: اللہ تعالی آپ کے ذریعہ ایک شخص کوبھی ہدایت دیتا ہے تو یہ ہر چیز سے بہتر ہے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔

● المستدرک جلد ۳ صفحہ ۵۹۸
● المعجم الکبیر جلد ۱ صفحہ ۳۱۵
● شرح نہج البلاغہ جلد ۴ صفحہ ۱۴
یہ روایت مختلف کتابوں میں مختلف انداز میں نقل ہوئی ہے.

نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا دینی فریضہ ہے

سوم، خواہ کوئی ہدایت نہیں پاتا، پھر بھی نیکی کا حکم دینے {امر بالمعروف} اور برائی سے منع کرنے {نہی عن المنکر} کے مذہبی فریضہ کی وجہ سے ایسے مباحث ضروری ہیں۔

مقصد کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے یہ دینی فریضہ معطل نہیں ہوتا۔ اگر اس کا مقصد پورا نہ ہو تب بھی اس کا ثواب برقرار رہتا ہے۔

سبت کے اصحاب کے بارے میں غور و فکر کرنے کی نصیحت یہ ہے کہ قرآن پاک میں درج ہے:

اور ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کے بارے میں اللہ تعالی تباہ کرنے یا سخت سزا دینے والا ہے۔؟ انہوں نے {مشیروں} نے کہا، اپنے رب کے سامنے بری ہونے کے لئے اور شاید وہ اللہ تعالی سے ڈریں۔ {سورہ اعراف ۷ آیت ۱۶۴

بنی اسرائیل پر ہفتہ کے دن مچھلی پکڑنا ممنوع تھا، لیکن انہوں نے اپنے عمل کے لئے راستہ تلاش کرنا شروع کر دیا، بنی اسرائیل کے مومنین نے دوسروں کی پیروی نہیں کی لیکن یہ مومنین دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے:

پہلا گروہ لوگوں کو اس فرض پر عمل کرنے کا حکم دیتا تھا جو ان پر عائد کیا گیا ہے اور جس چیز سے ان پر ممانعت کی گئی ہے ان پر اجتناب کرنے کا حکم دیتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ذمہ داری اٹھانی چاہئے ،چاہے ان کی تنبیہات کا فاسقوں پر مطلوبہ اثر نہ ہو۔ اگر انہوں نے اس اہم ذمہ داری کو چھوڑ دیا تو ان کا نیک عمل اللہ کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

دوسرا گروہ یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ اس تبلیغ کا فاسقوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور انہوں نے دعوی کیا کہ اللہ عنقریب ان پر اپنا عذاب نازل کرے گا اور ہماری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

آخر کار اللہ کا عذاب ان فاسقوں اور مومنین پر نازل ہوا جنہوں نے برائی سے منع کرنے سے گریز کیا۔

واحد گروہ جو عذاب سے بچایا گیا وہ مومنین تھے جنہوں نے سبت کے دن فاسقوں کو مچھلی پکڑنے سے خبردار کیا۔

جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے {صرف} ان لوگوں کو بچایا جنہوں نے دوسروں کو برائی سے روکا۔ یعنی فاسقوں کے ساتھ دوسرے اہل ایمان بھی ہلاک ہو گئے۔ حالانکہ دونوں گروہوں کے سزا کی سطح مختلف ہو سکتی ہے۔
● تفسیر مجمع البیان جلد 4 صفحہ 380
● تفسیر الصافی جلد 2 صفحہ 245

اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ فائدہ اٹھانے والا واحد گروہ وہ ہے جو نیکی کی طرف حکم دینے کے اہم دینی فریضہ پر عمل کرتا ہے۔اور برائی سے منع کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہیں چاہے ان کے اعمال سے کسی ایک شخص کو بھی ہدایت نہ ملے۔

نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا بنیادی مقصد:

لوگوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت کو قبول کریں۔ اسی طرح لوگوں کو برائی سے باز رہنے کی تلقین کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ غاصبوں اور اہل بیت علیہم السلام کی دوسرے ملعون دشمنوں کی حاکمیت کو قبول کرنے سے باز رہیں۔

اس تاکید کی وجہ ابو حنیفہ کے اس سوال کے جواب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا جواب ہے جنہوں نے دریافت کیا ” میں آپ پر قربان ہو جاؤں، وہ معروف کیا ہے” جس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرمایا: “ابو حنیفہ، معروف وہ ہے جو آسمان اور زمین میں نیکی کے لئے مشہور ہے اور وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

اس پر ابو حنیفہ نے پوچھا ” میں آپ پر قربان ہو جاؤں، پھر “منکر” کیا ہے؟

امام علیہ السلام نے جواب دیا: ” یہ وہ دو ہیں جنہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے حق پر ظلم کیا ہے اور ان کے حقوق غصب کیے ہیں اور لوگوں کو آپ پر مسلط کیا ہے۔

نظریہ کو دوسروں پر ذبردستی نہ تھوپنا۔

قرآنی آیت ہے، تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کو کسی صورت باطل نہیں کرتا، آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم بیکار بیٹھیں رہیں اور یہ اعلان کریں کہ لوگوں کی رہنمائی کے لئے کام کرنا ضروری نہیں ہے۔

اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو زبردستی اسلام قبول کروانے سے گریز کیا جائے ۔ وہ اپنی پسند کے کسی بھی مذہب کی پیروی کرنے اور اپنے عقائد پر چلنے کے لئے آزاد ہے ۔

نیکی کا حکم دینے اور برائی سے باز رہنے کی فضیلت

آخر میں ہم کہتے ہیں ان کو اس عمل کی فضیلت اور ثواب کا احساس نہیں ہوتا۔

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک ایسے گروہ کے بارے میں بتاؤں جو نہ انبیاء ہیں اور نہ ہی شھداء، لیکن قیامت کے دن انبیاء اور شہداء، اللہ کے نزدیک ان کے مقام پر رشک کریں گے اور وہ لوگ روشنی کے منڈیر پر ہونگے۔

ان لوگوں نے سوال کیا، یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہونگے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی محبت لوگوں کے دل میں ڈالتے ہیں اور اللہ کو لوگوں سے قریب کر تے ہیں، پھرجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارد گرد تھے انہوں نے پوچھا:

اللہ کی محبت لوگوں کے دل میں ڈالنا ٹھیک ہے مگر اللہ کو لوگوں سےمحبت کرانا یہ کیسے ممکن ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو وہ کام کرنے کی ترغیب دینا جو اللہ تعالی کو پسند ہے اور ان کاموں سے پرہیز کرنا جو اللہ تعالی کو نا پسند ہیں۔

● روضۃ الواعظین صفحہ ۱۲
● مشکاۃ الانوار صفحہ ۲۴۰
● بحار الانوار صفحہ ۲۴
● مستدرک الوسائل جلد ۱۲ صفحہ ۱۸۲

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: سب سے بڑا جہاد لوگوں کو نیکی کا حکم دینا ہے اور برائی سے روکنا ہے۔

● تشدید المتین جلد ۱۶ صفحہ ۱۵۳
● الکشاف زمخشری جلد ۱ صفحہ ۴۵۲
● تفسیر الرازی جلد ۸ صفحہ ۱۷۹

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے دو مخلوقات ہیں، جو ان دونوں کاموں میں مدد کرے گا، اللہ تعالی اس کو عزت بخشے گا، اور جو ان دونوں کاموں کو حقیر سمجھے گا، اللہ تعالی اسے ذلیل کرے گا۔

● الکافی جلد ۵ صفحہ ۵۹
● ثواب الاعمال صفحہ ۱۶۰
● وسائل الشیعہ جلد ۱۶ صفحہ ۱۲۴

Short URL : https://www.saqlain.org/mf9v