فدک پر مولا علیؑ کی محکم قرانی دلیل

“علیؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہے۔” (المستدرک ج ٣ ص ١٣۴، الصواعق المحرقة: ص 126؛ الأمالی للطوسی: ص 478 وغیرہ) رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس روایت کو فریقین کی مستند کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بلا شبہ حضرت علیؑ سے زیادہ کسی صحابی کو قرآن کریم سے اتنی قربت نہ تھی اور نہ کوئ دوسرا صحابی کتاب الہی کے علوم کی بابت واقفیت رکھتاتھا۔ حضرت علی ع ہی کو قرآن کی محکم و متشابہ، ناسخ و منسوخ، مکی و مدنی ہر آیت کی شان نزول، تفسیر، تاویل ہر چیز کا مکمل علم تھا۔ (صحیح بخارى، تفسیر سوره بقره، باب قوله: «ماننسخ من آیة أوننسها نأت بخیر منها أومثلها». سوره بقره، آیه106)۔ یہ وہ علم تھا جو سرورِ عالم (ص) نے اپنے حقیقی جانشین کو براہ راست سکھایا تھا۔ بعد از وفات پیغمبرؐ جب کبھی امت کے پاس کسی مسئلہ کا حل نہ ملتا ، یا کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنا خلفاء کے لیے دشوار ہوتا تو وہ حضرت علیؑ کی طرف رجوع کرتے اور امیرالمومینؑ بآسانی قرآن سے اس مسئلہ کا حل اور اس مقدمہ کا فیصلہ سنا دیتے۔ خود خلیفہ دوم عمر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ‘امت میں سب سے اچھی قضاوت کرنے والے علیؑ ابن ابی طالبؑ ہیں۔’ (الطبقات الکبری ج 2، ص 285)۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کے دوسرے خلفاء کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ “اگر علیؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔” (الاستیعاب ج ٣ ص ١١٠٣)

تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسی عظیم شخصیت کی موجودگی کے باوجود خلفاء نے باغ فدک کے مسئلہ میں حضرت علیؑ کے فیصلے سے استفادہ کیوں نہ کیا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ باغ فدک کے مقدمہ سے متعلق بھی حضرت علیؑ نے خلیفہ اول کے سامنے قرآنی دلائل پیش کیے تھے ، مگر افسوس ابوبکر نےقرآن کے تمام دلائل کو رد کردیا۔ واقعہ اس طرح ہے:-
کتاب الاحتجاج میں علامہ طبرسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت علیؑ مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ تمام مہاجرین و انصار جمع ہیں۔ آپؑ نے ابوبکر کی طرف رخ کیا اور فرمایا: “تم نے فاطمہ (س) کو ان کے حق سے کیوں محروم کردیا؟”
ابوبکر نے جواب دیا : “فدک مال فئ ہے اور تمام مسلمانوں کا حق ہے۔ اگر فدک فاطمہ (س) کا حق ہے تو وہ گواہوں کے ذریعہ سے اپنا حق ثابت کریں۔ اگر ثابت ہوگیا تو ہم فدک فاطمہ (س) کو واپس کر دیں گے۔”
یہ سن کر حضرت علیؑ نے کہا : “کیا تم ہمارے درمیان حکم خدا کے خلاف حکم لگانا چاہتے ہو؟”
ابوبکر نے کہا :”ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہتا ہوں؟”
حضرت علیؑ نے فرمایا:”اگر کوئ چیز مسلمانوں کے قبضے میں ہو اور میں دعویٰ کروں تو تم گواہ کس سے طلب کروگے؟”
ابوبکر نے کہا: “تم سے گواہ طلب کروں گا۔”
حضرت علیؑ نے فرمایا:”تو پھر فاطمہ (س) سے اس چیز میں کس طرح شاہد و گواہ طلب کرتے ہو جس پر فاطمہ (س) کا قبضہ ہے خواہ وہ قبضہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں ہو یا پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد ہو۔”
ابوبکر یہ سن کر خاموش ہو گئے اور حضرت علیؑ کی دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا:” یا علیؑ زیادہ بات نہ بڑھایئے اگر آپؑ بینہ اور شہود حاضر کرسکتے ہوں تو حاضر کریں ورنہ فدک چھوڑ دیں تاکہ ہم تمام مسلمان اس سے فائدہ اٹھائیں۔”
حضرت علیؑ نے ابوبکر سے سوال کیا:” کیا تم نے قرآن کی تلاوت کی ہے؟ اگر کی ہے تو مجھے بتاؤ کہ آیہء تطہیر ‘انما یرید الله لیذھب….’ہماری شان میں نازل ہوئ ہے یا کسی دوسرے کی شان میں؟” ابوبکر نے کہا:”آپ حضرات کی شان میں۔” حضرت علیؑ نے کہا:”اب میں تم سے پوچھتا ہوں اگر کوئ شاہد فاطمہ (س) کے حق میں گواہی دے اور غصے میں ان کو متہم قرار دیدے تو کیا کروگے؟” (نعوذ باللہ)
ابوبکر نے جواب دیا:” دوسری عورتوں کی طرح فاطمہؑ پر (نعوذ باللہ) حد جاری کروں گا۔” حضرت علیؑ نے فرمایا:”اس صورت میں تو تم کافر ہوجاؤ گے۔”
ابوبکر نے کہا:” یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟” حضرت علیؑ نے فرمایا:”کیوں کہ تم نے فاطمہ (س) کی طہارت پر الله کی گواہی کو رد کرکے لوگوں کی گواہی کو قبول کیا ہے۔ پس اسی طرح فدک کو تم نے تمام مسلمانوں کا حق قرار دے دیا اور اب انھیں سے گواہ طلب کرتے ہو جبکہ گواہ مدعی سے طلب کرنا چاہیے نہ کہ مدعیٰ علیہ سے اور فاطمہ (س) مدعیٰ علیہ ہیں نہ کہ مدعی۔”
حضرت علیؑ کا یہ استدلال سن کر وہاں موجود لوگ قائل ہوگئے اور چہ میگوئیاں کرنے لگے……
(ناسخ التواریخ جزء جناب فاطمہ زہرا (س) ص ١٦۴)

اس مکالمہ سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ خلیفہ اول نے جان بوجھ کر قرآنی حکم کے خلاف فیصلہ کیا اور جناب فاطمہ (س) کے باغ کو غصب کرلیا۔ جبکہ ان کی بیان کردہ حدیث (نحن معاشر الانبیاء لا نورث…) کسی بھی لحاظ سے قرآن اسے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس بات کو واضح طور پر دختر رسولؐ نے اپنے خطبے کے ذریعہ واضح کردیا تھا کہ یہ حدیث قرآنی فرمان کے خلاف ہے۔ مگر اس کے باوجود خلیفہ نے قرآن کے صریح احکام کی مخالفت کی جبکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن خود اعلان کرتا ہے کہ ‘جو بھی اس کے حکم کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ کافر ہے۔’ (مائدہ:۴۴)

Short URL : https://saqlain.org/so/173e