آلِ محمّد نائبِ رسولؐ کیوں نہیں؟؟

عبد الله ابن عبّاس سے ایک گفتگو کے دوران خلیفہء دوم عمر کا قول تاریخ میں درج ہے کہ قریش نہیں چاہتے تھے کہ خلافت و نبوت دونوں ایک ہی خاندان (بنی ہاشم) میں جمع ہو، اس لیے انھوں نے ابوبکر کو اپنا حاکم چن لیا۔ (شرح نہج البلاغہ جلد 12 صفحہ 53)۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ فکر رائج کی گئ کہ حاکمیت چاہے وہ نبوت کی شکل میں ہو یا خلافت کی شکل میں ایک ہی خاندان میں نہیں ہونی چاہیے۔ اہل تسنّن علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہی سبب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اپنا جانشین نہیں مقرر کیا تھا،کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلام میں ‘قبیلہ واد’ ہو یعنی وہ نہیں چاہتے تھے کہ حکومت ایک ہی خاندان میں سمٹ کر رہ جائے۔ اسی لیے اپنے نائب کے انتخاب کی ذمہ داری انھوں نے امت پر چھوڑ دی-

اس نظریہ پر ہمارے اعتراضات:-

پہلا: خلافتِ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ صرف بادشاہت اور حکمرانی نہیں ہے بلکہ یہ خلافتِ رسولؐ کا منصب احکامِ الٰہی کو نافذ کرنے کا منصب ہے۔ قرآن کی آیات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ امامت لوگوں میں الله کے احکام کو نافذ کرنے کا منصب ہے۔
سوره البقرة 213
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ…
ساری انسانیت ایک امت ہے پس الله نے انبیاء کو ‘مبشرین’ اور ‘منذیرین’ بنا کر ان کے درمیان مبعوث کیا اور حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائ تاکہ وہ لوگوں میں اللہ کے احکام کو نافذ کریں اور ان کے درمیان اختلافات کو مٹائیں……
اس لیے اس منصب کے لیے ایک ہدایت یافتہ شخص کی ہی ضرورت ہوگی تاکہ وہ عوام کی ہدایت کر سکے۔ ایک حقیقی ہادی کو تلاش کرپانا امت کے لیے محال ہے۔

دوسرا:- قرآن میں متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں خدا نے ہی قوم کے لیے ہادی منتخب کیے ہیں۔ بلکہ الله نے رشد و ہدایت پہنچانے کے لیے ایک خاص گھرانے کے افراد کو ہی منتخب کیا ہے۔
سوره آل عمران:33-34
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ۔
ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
یقیناً الله نے چنا ہے آدم کو، نوح کو، آل ابراہیم کو اور آل عمران کو عالمین (کی ہدایت) کے لیے۔
ان میں بعض بعض کی ذریت ہیں۔ (ایک ہی خاندان کے ہیں۔)

انبیاء کرام زیادہ تر ایک ہی گھرانے کے تھے۔ جناب ابراہیم کے فرزند نبی ہوءے پھر ان کی اولاد کو یکے بعد دیگرے منصبِ نبوت پر فائز کیا گیا جن کو قران نے ‘اسباط’ کہا ہے۔
سوره النساء:163
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا۔

اسی طرح آلِ عمران میں یہ سلسلہ جناب موسیٰ سے جناب عیسیٰ تک بنی اسرائیل میں پشت در پشت چلا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ایک خاندان میں نبوّت یا وصایت نہیں ہو سکتی غلط ہے۔

تیسرا : اپنےآخری وقت میں خلیفہ دوّم نے امت کے لیے خلیفہ نہیں چنا۔ مگر ایک شوریٰ قائم کی جس کو مسلمانوں کے لیے خلیفہ منتخب کرنا تھا۔ انھوں نے اس میں شرط یہ لگائ کہ ان ممبرانِ شوریٰ میں سے ہی ایک خلیفہ ہوگا۔ اور یہ چھ افراد خود اپنے میں سے ہی ایک کو منتخب کریں گے۔ اس کمیٹی میں انھوں نے حضرت علی کو بھی رکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو خلافت کے لائق سمجھتے تھے۔ اس کمیٹی میں حضرت علی علیہ السلام کی موجودگی خود عمر کی اپنی اس راے کی رد تھی کہ خلافت اور نبوّت ایک ہی گھرانے میں نہیں ہو سکتیں۔ ورنہ عمر کو علی علیہ السلام کو اس شوریٰ میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔

چوتھا:- اگر اس نکتے کو مان لیا جائے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا یہی منشا تھا کہ حکومتِ اسلامی میراثی بن کر نہ رہے تو پھر قرن اوّل میں صحابہ، تابعین اور تبعء تابعین کے گروہ نے بنی امیہ اور بنی عباس کے گھرانوں کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کی؟؟
حتّیٰ کہ آج خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھنے والے سعودی حکمران کیوں اپنے بعد اپنے بیٹے کو حاکم نامزد کر دیتے ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ حکومت ہمیشہ خاندانی میراث بنی رہی۔ چاہے وہ صدرِ اسلام میں بنی امیہ رہے ہوں یا ہندوستان کی مغلیہ حکومت اور کبھی کسی کو کوئ پریشانی بھی نہیں ہوئ۔ ہاں بس پریشانی اتنی ہی ہے کہ رسول کا خاندان حکومت نہ کرے۔ کسی کا بھی خاندان حکومت کرے اس کے لیے کوئ قائدہ قانون نہیں صرف آلِ رسول کے لیے بندشیں ہیں۔