کیا غیر الله سے مدد طلب کی جا سکتی ہے؟: قرانی دلائل.

آج کے ترقّی یافتہ دور میں بعض یو ٹیوب (youTube) پر نظر آنے والے خطیب اور ‘پگڑی والے علماء’ اپنےمریدوں کے سوال کے جواب دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بہت سے (followers) چاہنے والے بھی ہوتے ہیں جو ان سے دینی مسائل پر ان کی راے اور فتوے حاصل کرتے ہیں۔ان میں زیادہ تر سوالات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ انھیں میں سے ایک سوال جو ان کے یہاں مشترک ہے وہ یہ کہ “کیا غیر اللہ سے مدد مانگی جاسکتی ہے؟”

اس سوال کے جواب میں اکثر و بیشتر سورہ حمد کی اس آیت کو پیش کیا جاتا ہے : ‘ایّاک نعبد و ایّاک نستعین’ “ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔” چونکہ اس آیت میں صرف اللہ ہی سے مدد طلب کرنے کی بات کہی گئ ہے لہٰذا غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے اس لیے جائز نہیں ہے۔ پھر وہ یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ انبیائے کرام (ع)، ائمہ معصومین (ع) یا کسی بھی ولئ خدا بلکہ خود رسول اللہ (ص) سے بھی مدد مانگنا شرک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح ہے؟ کیا واقعًا قرآن کریم نے انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنے کو شرک قرار دیا ہے؟

خالق کائنات نے اپنی اس کتاب میں اپنے کچھ برگزیدہ انبیاء کی داستانیں بیان کی ہیں۔ ان داستانوں کا ایک مقصد یہی ہے کہ ان گزشتگان کے واقعات سے عبرت حاصل کی جائے۔ ہم بھی سنّت اِلٰہی پر عمل کرتے ہوئے انھیں کچھ واقعات سے اس سوال کا جواب حاصل کریں گے۔

• جناب موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالی نے فرمایا: فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِہٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّہٖ۝۔ (قصص:١۵)
” موسیٰؑ کے ایک شیعہ نے موسیٰ کو مدد کے لیے پکارا اس شخص کے خلاف جو اس کا دشمن تھا۔

• اس آیت میں ایک بات تو یہ ہے کہ لفظ ‘شیعہ’ استعمال ہوا ہے کہ موسیٰؑ کے شیعہ نے موسیٰؑ کو اپنا ‘مشکل کشا’ پایا تو ان سے مدد کی درخواست کی۔
• دوسری بات یہ کہ قرآن نے یہ بھی نقل کیا کہ جناب موسیٰؑ نے اس شخص کی مدد کی۔ آپؑ کا اپنے شیعہ کی مدد کرنا بتاتا ہے کہ نہ اس کا مدد طلب کرنا شرک تھا اور نہ ہی جناب موسیٰؑ کا اس کی مدد کرنا۔ اس لیے نبئ خدا سے مدد طلب کی جاسکتی ہے۔

• اسی طرح جناب سلیمان کو جب بلقیس کے تخت کی ضرورت ہوئ تو آپؑ نے دعا کرنے کے بجائے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ کون ہے جو ان کے لیے تختِ بلقیس لے آے گا؟؟ (نمل:٣٨)۔ کیا جناب سلیمانؑ کا اس طرح مدد طلب کرنا شرک ہے؟؟ کیا یہ ‘وایّاک نستعین -ہم صرف تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں’ کے اصول کے خلاف ہے؟؟ یاد رہے کہ جناب سلیمانؑ کو ہواؤں پر بھی حکومت حاصل تھی اگر وہ خود ہواؤں کو حکم دیتے تو وہ تخت ان کے دربار میں حاضر ہوجاتا۔

• پھر سورہ تحریم کی آیت نمبر ۴ میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ” اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ۔۔۔۔اور اگرتم نبیؐ کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کروگی تو جان لو کہ اللہ ان کا مولا و مددگار ہے، جبرئیل ، صالح مومنین مدد گار ہیں اور تمام ملائکہ ہمارے نبی کے پشت پناہ ہیں۔ (تحریم:۴)
اس آیت میں تو خود اللہ تبارک وتعالی نے غیر اللہ کے مدد گار و پشت پناہ ہونے کی بات کردی۔ کیا یہ آیت قرآن کی اس آیت کی نفی کرتی ہے؟؟ “من یتوکل علیٰ اللہ فھو حسبہ” (طلاق:٣) ‘ جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے اللہ کافی ہے’

اسی طرح ایک اور آیت میں اللہ اسی رسولؐ کے لیے ارشاد فرمارہا ہے:”الیس اللہ بکاف عبدہ…” (زمر:٣٦) ‘”کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟”
کیا یہ آیتیں ایک دوسرے کی تردید کر رہی ہیں؟؟ بالکل نہیں۔ قرآن میں کسی طرح کا اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔
ان آیتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملائکہ اور صالح مومنین کو اللہ ہی نے اپنی طرف سے رسولؐ اور مومنین کا مددگار معین کیا ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسولؑ اور مومنین کی مدد کرنے کے لیے ہی ان ملائکہ اور صالحین کو مامور کیا ہے۔ جنگ بدر میں ملائکہ کا شامل ہونا، جس کا کہ قرآن میں بھی ذکر ہوا ہے، اس بات کی ایک واضح دلیل ہے جس کو کوئ نہیں جھٹلا سکتا۔

اتنا ہی نہیں سورہ اسراء:٨٠ میں خود اللہ، رب العزت، اپنے حبیب سے فرما رہا ہے کہ مجھ سے ایک مددگار طلب کرو : “قل… واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا” “اے حبیب یہ دعا کیجیے کہ… پروردگار مجھے اپنی جانب سے ایک بااختیار مددگار قرار فرما۔”

واضح رہے یہ حکم نہیں ہے کہ مجھ سے مدد طلب کرو بلکہ مجھ سے ‘مددگار’ طلب کرو۔
اس لیے جس خدا نے “وایاک نستعین” کے اصول کی تعلیم دی ہے اسی نے اس آیت میں اپنے حبیب اور “اسوة الحسنہ” کو یہ تعلیم بھی دی ہے کہ اپنی نصرت کے لیے مجھ سے ایک مددگار طلب کرو۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب ہم ان کڑیوں کو جوڑتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان آیات قرآنی اور فرامین الہیہ میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں :

١) اللہ قادر مطلق ہے اور صرف اسی کی ذات نفع اور نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر وہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا چاہے تو کوئ اسے روک نہیں سکتا۔

٢) حقیقی توحید یہی ہے کہ خدا کے بندے اپنے تمام امور کو انجام دینے میں صرف خدا سے مدد طلب کریں۔ اپنے تمام امور کے انجام میں اللہ ہی سے خیر و عافیت کے طلبگار ہوں۔ یہی ‘وایاک نستعین’ کے حقیقی معنی ہیں۔

٣) ‘اللہ الصمد’ : اللہ بے نیاز ہے۔ اپنے بندوں کی نصرت و مدد کے لیے اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ مگر اسی نے ملائکہ، مرسلین اور صالح مومنین کو اس سے مدد طلب کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ یہ افراد بقولِ قرآن ‘سلطانًا نصیراً’ کی فہرست میں شامل ہیں۔ لہٰذا ان ذواتِ مقدّسہ، جن کو خود خدا نے اس امر پر مامور کیا ہے، سے مدد طلب کرنا خود اللہ سے مدد طلب کرنا ہے اور ہرگز شرک نہیں ہے۔

آخر میں ان ‘یوٹیوبی خطباء’ کو ایک اہم بات بتانا ضروری ہے کہ جب بھی کوئ مسلمان رسولؐ اکرم سے یا کوئ مومن حضرات ائمہؑ سے مدد طلب کرتا ہے تو وہ صرف اس بنیاد پر کرتا ہے کہ اوّلًا تو خود اللہ نے ان کو مومنین کا مولا اور مدد گار بنایا ہے اور دوسرے یہ کہ ان حضرات کو خدا کی طرف سے یہ صلاحیّت اور اختیار بھی ملا ہے کہ وہ مومنوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ جس طرح ‘کتاب کا تھوڑا سا علم’ رکھنے والے وصئ سلیمانؑ پیغمبر، آصف ابن برخیہ، غائبانہ مدد کرسکتے ہیں اسی طرح مولا علیؑ اور دوسرے ائمہؑ بھی مومنین کی مدد کرسکتے ہیں۔ پتہ چلا قرآنی تعلیمات کی روشنی میں غیر اللہ سے مدد طلب کر سکتے ہیں اس میں کوئ مضائقہ نہیں ہے۔