موذن رسولؐ جناب بلال حبشی کا شمار ان خوش قسمت افراد میں ہوتا ہے جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ نے اسلام کے لیے بہت سی قربانیاں دیں۔ جناب بلال ایک ایسے کافر کے غلام تھے جو ان کے ساتھ ظالمانہ رویہ رکھتا تھا۔ اس رویے کا سبب یہی تھا کہ جناب بلال نے اللہ کی وحدانیت اور محمدؐ ابن عبد اللہ (ص) کی نبوت کو قبول کرلیا تھا۔ اس مجاہد اسلام نے تمام مشکلات کو برداشت کیا مگر اسلام اور اسلام کے پیغمبرؐ کی وفاداری نہ چھوڑی۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بلال کو ابوبکر نے آزاد کیا تھا، لیکن تاریخ میں یہ قابل قبول نہیں ہے۔
اہل تسنن علماء مثلاً ابو جعفر اسکافی (جو شارح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید کے استاد ہیں)، واقدی، ابن اسحاق وغیرہ نے اس بات کو قبول کیا ہے جس کے مطابق بلال کو حضرت پیغمبر(ص) نے خود خرید کر آزاد کیا ہے.
( ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص۲۷۳؛ تستری، قاموسی الرجال، ج۲، ص۳۹۳)
شیعه علماء نے بھی دوسری بات کو قبول کیا ہے کہ جناب بلال رسول اللہ (ص) کے ہی آزاد کردہ ہیں۔ بطور نمونہ شیخ طوسی نے اپنی رجال میں اور ابن شہر آشوب نے بھی بلال کو حضرت پیغمبر(ص) کا آزاد کردہ کہا ہے۔
(ابن شہرآشوب، مناقب، ج۱، ص۱۷۱)
سردار انبیاء (ص) کی رحلت کے بعد جب تمام لوگوں سے خلیفہ اول کے لیے بیعت طلب کی جارہی تھی تو لوگ جناب بلال کے پاس بھی آے مگر بلال نے بیعت کرنے سے اور ابوبکر کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آپ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور اس مؤذن رسولؐ نے اذان دینا ترک کر دیا۔ اس بات کا ذکر فریقین کی کتابوں میں ملے گا کہ رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد بلال نے کسی کے لیے اذان نہیں کہی۔
کتاب الاختصاص میں شیخ مفید نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے:
وكان بلال مؤذن رسول الله صلى الله عليه وآله فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وآله لزم بيته ولم يؤذن لأحد من الخلفاء وقال فيه أبو عبد الله جعفر بن محمد عليهما السلام: “رحم الله بلالا فإنه كان يحبنا أهل البيت…”
حضرت بلال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے موذنِ خاص تھے۔ جب آنحضرتؐ کی رحلت ہوئ تو بلال نے خلفائے وقت کے لیے آذان دینے سے انکار کردیا۔ وہ زیادہ تر اپنے گھر ہی میں رہا کرتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ “خدا بلال پر رحمت نازل کرے کہ وہ ہم اہلبیتؑ سے محبت کرتے تھے…. ”
(الاختصاص – الشيخ المفيد – ص٧٣)
اس طرح جناب بلال نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے اہل سقیفہ اور غاصبانِ خلافتِ علیؑ سے براءت کی۔ آپ نے خلفاء کے لیے کبھی اذان نہیں کہی اور امت کو اختلاف سے بچانے کے لیے اپنے مولا علیؑ ابن ابی طالبؑ کی طرح گوشہ نشینی کو اپنے لیے قبول کرلیا۔
آج امت کے سامنے اتباعِ حق کے لیۓ اس عظیم صحابی اور سلف صالح کا عمل بہترین نمونہ اور دلیل قطعی ہے۔