دختر رسولؐ گھر کے دروازے پرکیوں گئیں جبکہ گھر میں مولا علیؑ موجود تھے؟

تاریخ اسلام کے دردناک واقعات میں سب سے عظیم اور سخت ترین واقعہ در بتول پر حملہ ہے. اس حملے میں نہ صرف یہ کہ دختر رسولؐ کے گھر کو آگ لگائ گئ بلکہ خاتون عالمیان کو اس قدر زخمی کیا گیا کہ آپؑ کی شہادت واقع ہوئ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس سنگین جرم کو خلیفہ اول کے دوستوں نے بالخصوص ابن خطاب نے انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والے علماء اس واقعے کا انکار کرتے ہیں اور اس سے متعلق شبہات پیدا کرتے ہیں۔ ان ہی شبہات میں ایک شبہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس وقت خانہ فاطمہؐ پر حملہ ہوا اس وقت مولا علیؑ گھر میں موجود تھے، پھر کیوں کر انھوں نے گھر کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ اپنی زوجہ کو اس حملہ کا سامنا کرنے کی اجازت دی؟؟ کیا نعوذ باللہ مولا علیؑ اس حملہ سے خوف زدہ ہوگئے تھے؟ کس طرح ممکن ہے کہ علیؑ جیسا بہادر اپنے غیرت کو فراموش کر دے اور اپنی ناموس کو دشمنوں کے سامنے جانے دے؟؟ ان سوالات کے بعد اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ یہ تمام باتیں مولا علیؑ جیسے شجاع شخص کہ شایان شان نہیں ہیں اور ان کے لیے غیر ممکن ہے اس لیے یہ پورا واقعہ منگھڑت ہے اور رافضیوں کی ایجاد ہے. اس طرح وہ اس واقعہ کا سِرے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔

جواب:
پہلی بات: گھر کا دروزہ کون کھولے گا اس پر اسلام نے کوئ پابندی نہیں لگائ ہے مگر یہ ضرور قرآن کی تعلیم ہے کہ ‘اگر تم مومن ہو تو کسی کے بھی گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرو اور اگر اجازت نہ ملے تو اس میں نہ داخل ہو۔’ (نور: ٢٧) لہذا یہ سوال اپنے آپ میں بچکانہ ہے۔ سوال گھر والوں کے بارے میں نہیں ہوسکتا کہ اس نے کیوں نہیں دروازہ کھولا بلکہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ جب اجازت نہیں ملی تو گھر میں جبرًا کیوں لوگ داخل ہوے؟ کیا یہ لوگ مومن نہ تھے کہ قرآن کی پابندی پر عمل کرتے؟

دوسری بات: جب خلیفہ اول کے لیے بیعت طلب کی جارہی تھی تو عمر اور ان کے ساتھی تین مرتبہ درِ بتول پر آئے تھے۔ حملہ تیسری مرتبہ کیا گیا جبکہ اس سے پہلے کہ دونوں مرتبہ دروازے پر ان کو جناب فاطمہ (س) ہی ملی تھیں۔ جناب سیدہ (س) نہیں چاہتی تھیں کہ بات جنگ و جدال تک پہنچے اسی لیے آپؑ نے بارہا دروازے پر آکر مجمع کو خاموش کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ حملہ آوروں کو بھی یہ بخوبی معلوم تھا کہ دروازے پر ان کا سامنا دختر رسولؐ سے ہوگا اس کے بعد بھی ان لوگوں نے گھر پر حملہ کرنے کی جسارت کی اور اپنی بے حیائ کا مظاہرہ کیا جبکہ ان لوگوں کو خاتون جنت کے احترام میں خاموشی سے پلٹ جانا چاہیے تھا۔

تیسری بات: ہر خاتون کو اپنے شوہر کی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ اس معاملہ میں مولا علیؑ نہ صرف یہ کہ دخترِ رسولؐ کے شوہر تھے بلکہ امامِ وقت اور وصیءِ رسولؐ کے مقام پر بھی فائز تھے۔ لہذا جناب سیدہ (س) پر یہ فرض تھا کہ اپنے وقت کے امام کی نصرت کریں، جو انھوں نے بخوبی انجام دی۔ یہی وجہ تھی کہ مولا علیؑ کو ان کے دشمنوں کے شر سے بچانے کے لیے آپؑ خود دروازے پر گئیں اور ان حملہ وروں کا مقابلہ کیا۔

چوتھی بات: اگر جناب فاطمہ (س) کے بجاے خود مولا علیؑ دروازے پر چلے جاتے تو ان کو گھیر کر خلیفہ کے پاس لے جایا جاتا اور جبرًا ان سے خلیفہ کی بیعت کرالی جاتی اور تاریخ میں یہ لکھ دیا جاتا کہ علیؑ نے خوشی خوشی ابوبکر کی بیعت کرلی تھی۔ (جو کہ ایک جھوٹ ہے اور اس جھوٹ کو پھر بھی بعض نام نہاد جھوٹے علماء بیان کرتے ہیں۔) جناب فاطمہ (س) کے اس قدم نے اس طرح جبرًا بیعت کو ٹال دیا۔ نتیجتًا بخاری جیسے متعصب عالم’ کو بھی مجبورًا اس بات کو نقل کرنا پڑا کہ علیؑ نے فاطمہؐ کی زندگی میں ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی۔ اس طرح تاریخ کے ہر منصف مزاج طالب علم کے لیے یہ باتیں واضح ہوجائیں گی- اوّلًا: یہ کہ ابوبکر کے لیے جبرًا بیعت طلب کی گئ تھی اس پر مسلمانوں میں نہ کوئ اجماع تھا نہ اس کی مقبولیت تھی۔ دوسرے: ابوبکر کی خلافت غصب کی ہوئ تھی۔ تیسرے: اہلبیت رسولؐ نے ابوبکر کی خلافت کو قبول نہیں کیا تھا۔ چوتھے: بنت رسولؐ کو یہ ظاہر کرنا تھا کہ ان کے گھر حملہ کرنے والے کس قدر بے حیا، بے غیرت اور کفر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ (بحارالانوار ج ٣٠ ص ٢٩٣، عوالم العلوم ج ١١ ص ۴٠۵)

حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی دفاع کرنے میں اور ظالم کو بے نقاب کرنے میں خاندانِ رسالت کی خواتین نے بھی قربانیاں پیش کی ہیں۔ دختر رسولؐ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا یہ قدم اسی جزبے کا نمونے عمل ہے۔